Gauhar Jaan Blog

گوہر جان : ایک عہد ساز آواز

ایک زمانہ تھا جب ہندوستانی موسیقی کی ملکہ گوہرجان کلکتے والی، نے ہندوستان بھرمیں اپنی آواز حسن و رقص سے تہلکہ مچا دیا تھا۔ وہ بیسویں صدی کی تین دہائیوں تک ہندوستان کی سب سے بڑی گائیکہ بنی رہیں۔ گوہر جان وہ پہلی ہندوستانی آواز تھی جس کا ریکارڈ بنا تھا۔ اس زمانے میں ان ریکارڈس کو” توا ” کہا جاتا تھا کیونکہ یہ کالے رنگ کے ہوتے تھے۔

گوہر جان نے سنہ 1902 سے سنہ 1920 کے دوران 600 سے زیادہ نغمے ریکارڈ کروائے۔ ہر نغمے کے آخرمیں گوہرجان بڑی ادا سے اپنا نام ان الفاظ میں بتاتی تھیں

 ’مائی نیم از گوہر جان’

گوہرجان نے محفلوں کی گائیکی سے زیادہ اپنی ریکارڈنگ کے ذریعے ٹھمری، دادرا، کجری، چیتی، بھجن اور ترانہ دور دور کے لوگوں تک پہنچایا۔

انھوں نے ہندوستانی یا اُردو کے علاوہ بنگالی، پنجابی، مدراسی، برمی، عربی، کچھی، ترکی، سنسکرت، تیلگو اور فارسی کے علاوہ پشتو میں بھی چند گیت گائے۔ وہ خود بھی شاعرہ تھیں۔ ان کا تخلص تھا ہمدم۔

گوہر جان جس نے نہ صرف بے حد شہرت اوردولت کمائی بلکہ خوب دولت لٹائی بھی تھی۔

گوہرجان کوہم ہندوستان کی پہلی ’انٹرنیشنل سٹار‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کی شہرت ہندوستان سے باہر بھی موجود تھی۔ آسٹریا میں بننے والی ماچس کی ڈبیہ پران کی تصویرہوتی تھی۔ ڈبیہ پر’میڈ ان آسٹریا‘ لکھا ہوتا تھا اور وہ آ سٹریا کے علاوہ ہندوستان میں بھی فروخت ہوتی تھی۔ گراموفون رکارڈز کی کمپنیاں ان کی تصویریں شائع کرتی تھیں اوراپنی فروخت میں اضافہ کرتی تھیں۔ ان کی تصویریں پوسٹ کارڈوں پر ہوتی تھیں جنھیں لوگ کتابوں پرچپکا لیتے تھے۔ پنجاب اور راجستھان کے کٹھ پتلی کھیلوں میں ان کے نام کے کرداربنائے جاتے تھے۔

گوہرجان ایک عہد، تہذیب، شان و شوکت کی افسانوی داستان تھیں۔ ان کی رنگارنگ شخصیت اور داستان زندگی پر تو پوری ایک فلم بن سکتی ہے۔ کہاں سے یہ داستان شروع کی جائے بڑی مشکل ہے۔

کالے توے روشن مستقبل

چلیں پہلے بات ان کالے تووں کی کرتے ہیں جو نہ صرف گوہرجان کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں بلکہ ہندوستان کی ثقافت و موسیقی کی دنیا میں بھی ایک سنگ میل ہیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب خاموش سینما ہندوستانیوں کی زندگی کا حصہ بنتا جا رہا تھا جبکہ یورپ میں موسیقی کو کالے تووں پرریکارڈ کرنے کا تجربہ کیا جا رہا تھا، جنہیں ڈسکو گرافی کا نام دیا گیا تھا۔ مگر ہندوستان کے بڑے بڑے موسیقار اور گلوکار اس کے مخالف تھے۔ اُن کو ڈر تھا کہ اس طرح اُن کی موسیقی عام ہوجائے گی اور لوگ ان سے روبرو (لائیو محفل) موسیقی سننے کے بجائے اپنے گھروں پر ہی اُن کی گائیکی سن لیں گے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی کلاسیکی اور نیم کلاسیکی موسیقی دو تین منٹ میں گانا ان فنکاروں کے لئے ناقابل تصورتھا اور یہ کالے توے یعنی ریکارڈ صرف دو یا تین منٹ کا گانا ریکارڈ کرسکتے تھے ۔ لیکن گوہرجان نے اس چنوتی کوقبول کیا ۔ ہرایجاد کی طرح یہ ڈسکو گرافی بھی بہت جلد اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو گئی۔

گوہر جان کی پہلی ریکارڈنگ : ایک یادگار

آٹھ نومبر 1902ء وہ تاریخی دن ہے جب ہندستان میں پہلی بارگلوکاری کی ریکارڈنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔

انگلینڈ کی کمپنی گراموفون اینڈ ٹائپ رائٹر لمیٹڈ نے اپنے ایجنٹ فریڈرک ولیم گیسبرگ کو ہندوستان بھیجا تاکہ ہندوستانی سنگیت کو ریکارڈوں میں بھرا جائے۔

کلکتہ کے ایک ہوٹل کے دو بڑے کمروں کواس مقصد کے لیے اسٹوڈیو میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ گیسبرگ نے اپنی کتاب میں گوہر جان کے بارے میں لکھا ہے

فن کارہ بگھی میں سے اتری تو گیسبرگ نے دیکھا شاندار لباس اور قیمتی زیورات سے سجی ایک بے حد خوبصورت لڑکی ہے جو مہمانوں کے ساتھ نہایت شائستگی کے ساتھ مل رہی ہے۔ قریب آنے پر گیسبرگ نے غور کیا کہ لڑکی کا چہرہ مہرہ، رنگت اور قد کاٹھ سب یورپین تھا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے ہاتھ خزانہ لگ گیا ہو۔ لڑکی نے مسکرا کر گیسبرگ کو دیکھا اورخوش خلقی سے انگریزی زبان میں کہا، ’ہیلو جنٹلمین۔‘ گیسبرگ نے تعظیماً سرجھکا دیا۔ محفل شروع ہوئی، لڑکی نے ٹھمری گانا شروع کی اور سماں ہی بدل گیا

اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ گوہر جان میں خود اعتمادی بھی بے پناہ تھی۔ وہ اپنی قدرجانتی تھیں، ان سے محنتانہ طے کرنے میں”ہمیں پسینہ آ گیا“ ۔

گوہر جان نے کمپنی سے فی ریکارڈنگ کے عوض 3000 روپے طے کیے، جو اس وقت کے حساب سے بہت زیادہ تھے، یہ وہ زمانہ تھا جب ایک تولہ سونے کی قیمت 20 روپے تھی۔ گیسبرگ نے مزید لکھا کہ جب بھی وہ ریکارڈنگ کے لیے آتیں تو ہمیشہ خوبصورت اورمہنگا لباس زیب تن کیے ہوتیں اور ایک بار پہنے ہوئے لباس اور زیورات کو انھوں نے دوبارہ کبھی نہیں پہنا

گوہر جان نے ایک شاہانہ زندگی بسر کی، وہ چار گھوڑوں والی بگھی میں سفر کرتی تھیں. گھڑ سواری کی رسیا تھیں، ان کے دن کا بیشتر حصہ مہالکشمی ریس کورس میں گھڑ سواری میں گزرتا اور راتیں فن کا مظاہرہ کرنے میں ۔ وہ اپنی شاہ خرچی کے حوالے سے بھی شہرت رکھتی تھیں، مثلا” ایک بار جب ان کی بلی نے بچے جنے تواس خوشی میں انہوں نے بہت بڑی دعوت پر 20,000 روپے خرچ کرڈالے۔

انجلینا سے گوہر جان تک کا سفر

گوہر جان کا نام انجیلینا تھا۔ وہ اینجلینا سے گوہر اور پھر ‘گوہر جان‘ کیسے بنیں یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ یہ کہانی 1857 میں یوپی کے شہراعظم گڑھ سے شروع ہوتی ہے جب رکمنی نامی عورت ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک افسر ہارڈی ہیمنگزسے شادی کی خاطرعیسائی ہوئی اوران کےیہاں ایک بیٹی نے جنم لیا۔ اس بچی کا نام ایڈلین وکٹوریہ ہیمنگزرکھا گیا۔ وکٹوریہ کی چھوٹی بہن بھی پیدا ہوئی جس کا نام بیلا رکھا گیا۔

ہارڈی ہیمنگز زیادہ عرصے زندہ نہ رہ سکے اور اُن کی وفات کے بعد رکمنی اور ان کی بیٹیوں کو بہت مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وکٹوریہ کو ایک کارخانے میں ملازمت کرنی پڑی۔ اسی کارخانے میں وکٹوریہ کی ملاقات ایک ارمینین نسل کے انجینئر رابرٹ ولیم یووارڈ سے ہوئی جس نے وکٹوریہ سے سنہ 1872 میں شادی کرلی۔ اس وقت ولیم 20 برس کا تھا اور وکٹوریہ صرف 15 برس کی تھی۔ ان کی ایک بہت خوبصورت بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام ایلن انجلینا یووارڈ رکھا گیا ۔ یہ شادی چل نہ سکی اور ولیم یووارڈ نے وکٹوریہ کو طلاق دے دی۔

اب وکٹوریہ کی ملاقات بنارس کے ایک رئیس صاحبزادہ خورشید سے ہوئی۔ انھوں نے وکٹوریہ کو پیشکش کی کہ وہ ہر طرح سے اُن کا اور اُن کی بیٹی کا خیال رکھیں گے مگر جواب میں وکٹوریہ کو بھی اُن کو خوش رکھنا ہوگا ۔

بنارس

اب ان ماں بیٹی نے اعظم گڑھ سے بنارس کا رُخ کیا جہاں وکٹوریہ نے اسلام قبول کرلیا اور اُن کا نام ملکہ جان جبکہ اُن کی بیٹی ایلن انجلینا کا نام گوہرجان رکھا گیا۔ صاحبزادہ خورشید نے ملکہ کی تربیت کے لیے فارسی اور اُردو کے اساتذہ مقررکیے اور انھوں نے رقص کی تربیت بھی حاصل کی اور اس فن میں جلد ہی طاق ہوگئیں۔ بنارس میں وہ جلد ہی ایک مشہور طوائف کے طور پر اپنی گائیکی اورکتھک رقص کے لئے مشہورہوگئیں۔

بنارس سے کلگتہ

اس زمانے میں کلکتہ فنون لطیفہ کا ایک نیا مرکزبن کراُبھررہا تھا۔ ملکہ جان اور ان کی بیٹی گوہرجان بھی بنارس چھوڑ کرکلکتہ پہنچ گئیں اورجلد ہی انھوں نے اودھ کے معزول نواب واجد علی شاہ کے دربارمیں ’بائی جی‘ کا مقام حاصل کرلیا۔

ملکہ جان رقص وموسیقی کےعلاوہ شاعری سے بھی شغف رکھتی تھیں۔ 22 اکتوبر 1886 کو اُن کا مجموعہ کلام ’مخزن الفت ملکہ‘ کے نام سے شائع ہوا۔

ملکہ جان نے کلکتہ میں تین سال کےمختصرسے عرصے میں۔40,000,کی مالیت کا ایک مکان 24 چت پور روڈ پر خرید لیا یہیں پر اب ملکہ جان نے اپنی بیٹی گوہرجان کی تعلیم وتربیت اور موسیقی اور رقص کی مہارت حاصل کرنے پراپنی توجہ مرکوزکردی۔

گوہرکو پٹیالہ کے کالے خاں عرف کالو استاد، رام پور کے استاد وزیرخاں، اور پٹیالہ گھرانے کے استاد علی بخش نے کلاسیکی موسیقی کی تعلیم دی۔

کتھک استاد برندا دین مہاراج مشہور کتھک رقاص برجو مہاراج کے دادا کے بھائی تھے، ان سے گوہر جان نے کتھک رقص کی تعلیم حاصل کی۔ سرجن بائی سے دھرپد اور چرن داس سے بنگالی کیرتن کی تعلیم پائی۔

گوہرجان کی سالگرہ

گوہرجان جن کوموسیقی و رقص میں یکتا کرنے پر ملکہ جان نے بہت دولت لٹائی تھی، جس کے ’لانچ‘ کی تیاریاں تھیں اور بڑے بڑے اُمراء جس کی خاطر دولت نثار کرنے کے لیے بے قرار تھے، اس کی تیرھویں سالگرہ چت پور ہاؤس میں بڑی دھوم دھام سے منائی گئی۔

اس میں کلکتہ کے بڑے رئیس اور بائیاں شامل تھیں اورعلاقے کے ایک مشہور اورعیاش رئیس راجہ خیرا گڑھ بھی موجود تھے۔ شراب پانی کی طرح بہہ رہی تھی اور تمام لوگ اس میں نہا رہے تھے۔ بڈھے اورعیاش راجہ نے سب کی مدہوشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تیرہ برس کی گوہر پر ہاتھ صاف کیا۔ ملکہ جان بہت روئیں پیٹیں۔

گوہر پر شدید ڈپریشن کا دورہ پڑا اوراس سے نکالنے کے لیے ان کی ماں ان کو اپنے ساتھ لے کر بڑی بڑی محفلوں میں جانے لگیں۔

ریاست دربھنگہ کے مہاراج لکش میشورسنگھ کے محل لکش میشور ولاس پیلس میں 1887ء میں جب گوہر نے صرف 14 سال کی عمر میں گانا پیش کیا تو وہاں موجود تمام لوگ گوہرکی گائیکی کے قائل ہو گئے۔ گوہر کو شہردربھنگہ اتنا پسند آیا کہ وہ دربھنگہ راج سے باقاعدہ منسلک ہو گئیں۔ لکش میشور سنگھ جب تک زندہ رہے، دربھنگہ راج سے گوہر منسلک رہیں۔

نواب رامپور کے دربار سے بھی تعلق رہا۔ نواب رامپور کے خاندان کی عورتیں بھی ان سے بہت دوستانہ انداز سے ملتی تھیں۔

گھنگر یالے چوکلیٹ براؤن بالوں کی الٹی چوٹی۔ چوڑی دار پاجامہ۔ جب وہ گاتی تھیں والیان ریاست ان کے اوپر سے جواہرات نچھاور کرتےتھے۔ وصولی کے معاملے میں وہ ذرا مروت نہیں کرتی تھیں۔ گانےکی محفل کا بلاوا دینے کے لیے آنے والے قدردانوں سے جب تک وہ سونے کی سواشرفیاں نہ وصول کر لیتیں محفل میں جانے کی حامی ہی نہ بھرتیں۔

یوں تو ان کے بہت سے پرستار اور چاہنے والے تھے۔ لیکن جس شخص سے انھیں محبت ہوئی وہ چند برس کی رفاقت کے بعد ہی چل بسا۔ 1904 میں گوہرجان کی ملاقات پارسی تھیٹرآرٹسٹ امرت کیشو نائیک سے ہوئی۔ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے لیکن اچانک چند برس بعد نائیک کی موت ہوگئی۔

سنہ 1911ء میں دلی کے دربار میں پرنس آف ویلز کنگ جارج پنجم کی تاج پوشی کے موقع پر منعقدہ تقریب میں گانے کے لیے گوہرجان کو بلوایا گیا تھا۔ جہاں انھوں نے الہ آباد کی جانکی بائی عرف چھپن چھری کے ساتھ مل کر خاص طور پر تیار کی گئی ایک مبارکبادی گائی تھی جس کے بول تھے : ”یہ جلسہ تاج پوشی کا، مبارک ہو، مبارک ہو۔“ جب یہ گیت ختم ہوا تو بادشاہ نے دونوں کے فن کی بہت تعریف کی اور بطور انعام سونے کی سواشرفیاں پیش کیں۔

اسی زمانے میں گوہرجان ایک نمائش میں شرکت کے لیے الٰہ آباد گئیں اور جانکی بائی کے مکان پر ٹھہریں۔ گوہر کی فرمائش پرجانکی انھیں اکبرالہ آبادی کے ہاں لے گئیں اور تعارف کرایا کہ یہ کلکتہ کی نہایت مشہور و معروف مغنیہ گوہرجان ہیں ۔ آپ سے ملنے کا بے حد اشتیاق تھا۔ اکبرالہ ابادی جونہایت بذلہ سنج اور حاضرجواب تھے انھوں نےکہا کہ آپ کی خدمت میں کیا تحفہ پیش کروں ۔ خیر ایک شعر بطور یادگار لکھے دیتا ہوں ۔‘‘ یہ کہہ ایک شعر ایک کاغذ پر لکھ کردے دیا

خوش نصیب آج بھلا کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

گوہر نے برجستہ کہا

یوں تو گوہر کو میسر ہیں ہزاروں شوہر۔
ہاں پسند اس کو نہیں ایک بھی اکبر کے سوا

گوہر نے شادی کی تو اپنے سے دس سال چھوٹے غلام عباس سے جو ان کےساتھ طبلہ بجایا کرتے تھے ۔لیکن یہ شادی کامیاب نہیں رہی۔ گوہر کو اس رشتے سے بہت دکھ ملے۔

وہ عورت جوخود اس قدر پڑھی لکھی اور باشعور تھی اس کی آخری عمرمقدموں میں کٹی اور مقدمے بھی جھوٹے۔ ان سے وہ باعزت بری تو ہوگئیں لیکن تمام دولت ہوا کے ساتھ اڑگئی۔

بڑھاپے نے گوہر کی دہلیز پر پہلا قدم ہی رکھ تھا کہ آواز کی چھنکار سب سے پہلے رخصت ہوئی مہاراجہ میسور نے دل کش نامی کاٹج گوہرجان کو رہنے کے لۓ دیے پانچ سو روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا۔ میسورہی کے کرشنا راجندر ہسپتال میں17 جنوری 1930 کو گوہرجان زندگی کی بازی ہارگئیں۔