Rekhta ebooks library

ریختہ کتب خزانہ اور تلاش نغمہ

ریختہ کی ڈیجیٹل لائبریری ایک جادونگری ہے۔ پرانی گمنام شاعرات کی تلاش کر رہی تھی کہ ایک خستہ حال سی کتاب
ملی نام تھا ’فریاد نغمہ‘۔ یہ کسی بیگم ایچ اے نغمہ کی منظوم، درد ناک آپ بیتی تھی۔ اس کتاب میں شامل کچھ نظموں نے مجھے کچھ الجھن میں ڈال دیا اور میں مارے تجسس کے کانپور، لکھنؤ اور ڈھاکا تک پہنچ گئی۔ جی نہیں! مجھے کہیں جانے کی ضرورت نہیں پڑی ریختہ پر موجود کتابو ں میں اس الجھن کا سرا ڈھونڈ رہی ہوں، سفر جاری ہے۔ ذرا رکئے پہلے ایک نظر ’فریاد نغمہ‘ کے سر ورق پر ڈالتے چلیں۔

دردانگیز روح فرسا
مصیبتوں اورغمناک آپ بیتی کا منظوم مجموعہ
فریاد نغمہ
نتیجۂ خیال
محترمہ ایچ۔ اے بیگم صاحب نغمہؔ
بانی زنانہ مسلم آرٹ اسکول،چمن گنج،کان پور
ملنے کا پتہ
دفتر رسالہ خاتون مشرق،اردو بازار،دہلی
قیمت ایک روپے آٹھ آنے

ادراہ خاتون مشرق سے شائع ہوئی اس کتاب کی قیمت ایک روپے آ ٹھ آنے ہے، سن اشاعت تو نہیں ہے لیکن اس میں شامل کچھ غزلوں اور نظموں پر سن31 سے سن 45 تک کی تاریخ درج ہے اور یہ معلومات بھی دی گئی ہے کہ یہ نظمیں کہاں لکھی گئی ہیں۔ کسی پر کانپور کے ہمایوں باغ،حبیب منزل کا پتہ ہے،آخری صفحات میں لکھنؤ کے حسین گنج، آئینہ بی بی کا باغ اور ایک اسپتال کا پتہ نشان ملتا ہے اورکسی میں ڈھاکہ کا ذکر ہے۔ کوئی کلکتہ کے ریلوے اسٹیشن پر کہی گئی ہے تو کوئی نرائن گنج میں۔

اس کتاب میں شروع کی نظموں میں نغمہ نے اپنے شوہر کا نام، بچیوں کے ناموں کے ساتھ تفصیل دی ہے۔۔اورلکھا ہے کہ ان کے شوہر نے ان پر مظالم کئے اور چھوڑ دیا، دوسری شادی کر لی، بچیوں کو چھین لیا۔ ماں باپ بھائی بہن بھی خفا ہو گئے۔ کتاب میں اپنے والد کا نام بھی دیا ہے اور ان کے انتقال پر ایک طویل درد بھری نظم بھی لکھی ہے۔ لیکن اس منظوم مظلوم سوانح میں جو باعث تجسس ہے وہ ہے ایک نام ۔ بہت سی غزلوں کے ساتھ نوٹس میں ڈاکٹر شادانی کا نام مع تاریخ اور دیگر تفصیلات کے نظر آیا۔ کسی پر لکھا تھا کہ یہ نظم ڈھاکا میں ان کے گھر کے ملازم سلارو کے کمرے میں کہی گئی، کسی میں ان کے دوست کے گھر پر لکھے جانے کی بات تھی۔ توکہیں کلکتہ کے ریلوے اسٹیشن کا ذکر تھا۔ اس کتاب فریاد نغمہ میں ڈاکٹر شادانی کے نام کے حوالے سے کوئی غزل ان کی سفاکی کے نام ہے تو کسی میں ان کو اپنی دوبارہ بربادی کی وجہ بتایا گیا ہے۔ کوئی غزل ان کے کسی خط کے جواب میں ہے۔ کوئی بذریعہ ڈاک ان کو رامپور بھیجی گئی ہے۔

اب تجسس تو ہونا ہی تھا نا؟ کون ڈاکٹر شادانی؟… ڈھاکہ….یہ ڈاکٹر عندلیب شادانی ہو سکتے ہیں جو اس زمانے میں ڈھاکا میں فارسی اور اردو کے پروفیسر تھے؟ جن کو مہتابی شاعر بھی کہا جاتا تھا کیونکہ ان کی شاعری میزم چاند کا بہت ذکرہوتا تھا۔ وہی عندلیب شادانی جن کی مشہور غزل سب کو ہی یاد ہے۔

دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو۔ آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے۔ اچھا میرا خواب جوانی تھوڑا سا دہرائے تو

عندلیب شادانی کی ننھیال رامپور میں تھی، وہ وہیں رہتے تھے اور اسن انیس سوبیس مدرسہ عالیہ رامپور سے منشی عالم کا امتحان پاس کیا تھا۔ اس کے بعد ان کی تعلیم لاہور میں ہوئی۔ سن اٹھائیس میں وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اردو اورفارسی کے لکچر ر بن کر گئے تھے اپنی وفات 1969 تک وہ ڈھاکہ ہی میں رہے۔

ریختہ کے خزانے میں فوراً ایک کتاب مل گئی’عندلیب شادانی حیات و کارنامے‘ جو ڈاکٹر کلثوم ابو بشر کا پی ایچ ڈی کا
مقالہ ہے۔ اس میں کسی نغمہ کا کوئی ذکر نہیں ملا۔ ساتھ ہی میں ایک اور کتاب ’مطالعہ عندلیب شادانی‘ نظر آئی جس میں کئی کام کی باتیں مل گئیں۔ اس دلچسپ کتاب کے مصنف مشہور محقق نظیر صدیقی ہیں جو ایک زمانے میں ڈھاکہ میں عندلیب شادانی پرریسرچ کررہے تھے۔ کئی ابواب کا مسودہ بھی تیار تھا لیکن کسی وجہ سے یکایک ان دونوں کا تعلق ختم ہوگیا۔ یہ ابواب ڈاکٹر صدیقی نے ایک اور طالب علم کے حوالے کردئے لیکن قیام بنگلہ دیش کے ہنگامی حالات میں یہ صاحب کسی طرح جان بچا کر کراچی نکل لئے اور یہ ابواب گم ہوگئے۔ ڈاکٹر صدیقی کی کتاب سے کچھ اہم باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ عندلیب شادانی کے والد ایک زمانے میں کانپور میں اپنے چمڑے کے کاروبار کے سلسلے میں رہتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ شادانی صاحب کی کوئی پرستار انھیں اودھ سے خط لکھتی تھیں اور تیسری بات یہ کہ ایک زمانے میں وہ پریم پجاری کے نام سے سچی کہانیاں لکھتے تھے جو ماہ نامہ ساقی میں 1933 سے شائع ہونی شروع ہوگئی تھیں۔ بس پھر کیا تھا ہم نے ڈھونڈ نکالی ریختہ خزانے سے پریم پجاری کی کتاب ’سچی کہانیاں‘ جو 1945 میں شائع، دوسرا ایڈیشن ہے جو عندلیب شادانی کے تعارفی تحریر کے ساتھ شائع ہوا ہے جس میں پہلے ایڈیشن کی تاریخ تو نہیں دی لیکن لکھا ہے کہ وہ ہاتھوں ہاتھ بکاا ور بہت جلد ختم ہوگیا تھا۔

اور اب ہمیں ان سچی کہانیوں میں ملی ایک دلچسپ کہانی جس میں قصہ تھاکہ عندلیب شادانی کو ایک بار لکھنو سے کسی خاتون نے ایک پارسل بھیجا جس میں ان کی گم شدہ بیاض تھی جو وہ ٹرین میں بھول آئے تھے۔ پارسل میں ایک گلابی لفافے میں خط تھا جس میں بھیجنے والی کا نام تو نہیں تھا لیکن ان کے ادبی کاموں کی ستائش تھی اور ان خاتون نے اپنی کچھ غزلیں بھی اس بیاض میں لکھ دی تھیں۔ مشکل یہ تھی کہ پارسل پر پتہ واضح نہیں تھا۔ شادانی صاحب نے اپنی اس سچی کہانی میں ان خاتون کی دو غزلیں اور شعر لکھے تھے اور قارئین سے درخواست کی تھی کہ کہیں اس شاعرہ کا پتہ چلے تو انھیں مطلع کیا جائے۔اب ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ان دو غزلوں میں سے ایک غزل ہمیں فریاد نغمہ میں مل گئی جس میں ان کا تخلص نغمہ بھی شامل تھا۔واضح رہے کہ نغمہ کی کتاب سے پہلے یہ سچی کہانیاں شائع ہوچکی تھیں….تو یہ کیا معاملہ ہے… یہ کون خاتون ہیں…کیاسچ ہے کیا فسانہ …. ہم نے کان پورکے پرانے لوگوں سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ فریاد نغمہ میں دیا گیا پتہ، ہمایو ں باغ بھی ہے اور حبیب منزل بھی لیکن اب وہ حبیب پلازا بن چکی ہے۔ کیا پتہ ہمیں اس کتاب میں دئے گئے لکھنؤ کے پتے اور نغمہ کے بارے میں ریختہ خزانے میں کچھ اور مل جائے۔