Mother's Day

ماؤں کے عالمی دن پر۔۔۔

جذبات کے جتنے رنگ و روپ ہو سکتے ہیں ان سب کی انتہا ماں ہے۔ ایک قطرے کو کوکھ میں پال کر انسان کرنے والی ہستی کو ہر تہذیب کے سرمائے میں ممتاز مقام ملا۔ سماجی درجہ بندیاں کچھ بھی کہتی ہوں مگر انسانی احساس کی تاریخ میں پہلے درجے پر ماں کے علاوہ کسی اور کو بٹھانا سخت نا انصافی ہوگی۔ ماں دنیا كا مقدس ترین رشتہ ہے، جس كا كوئی نعم البدل نہیں۔ ماں كے اس ممتا بھرے عظیم رشتے كو شہرت كی بلندیوں پر پہنچانے میں کئی ادیبوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

آئیے ہم آج ‘ماؤں کے عالمی دن’ کے موقعہ پر ‘ریختہ ای بکس’ لائبریری سے کچھ ایسی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں، جن میں ماں کی عظمت و تقدس کو نظم و نثر کے مختلف رنگوں میں پیش کیا گیا ہے۔

ماں کے نام

زیر نظر کتاب “ماں کے نام” نذیر فتح پوری کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ اس کتاب میں ماں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہوئی کئی اعلی قسم کی تحریریں ہیں۔ جس میں مقالات ہیں، افسانے، کہانیاں، تراجم اور شاعری ہے۔ اس کتاب میں تقریبا پچیس مقالات شامل ہیں، جن میں کئی طرح سے ماں کی عظمت و عقیدت پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ جیسے ‘ماں کا مقام اور اہمیت اسلام میں’ اس مقالے میں قران اور حدیث کی روشنی میں ماں کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اسی طرح ‘ماں ہندو اساطیر میں’ اس مقالے میں ہندو مذہب کی مختلف مقدس کتابوں، کتھاوں اور ویدوں کے حوالے سے ماں کی عظمت کو بتلایا گیا ہے۔ اسی طرح ‘ماں فن اور فلسفہ’، ‘ماں اردو شاعری میں’، ‘ماں ہندی شاعری میں’، ‘اردو افسانوں کی ماں’، ‘ماں مراٹھی شاعری میں’ وغیرہ۔ ایسے مقالات ہیں جن میں ماں کے ہر ہر پہلو پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں دلچسپ افسانے، کہانیاں اور افسانچے ہیں، جن میں ماں کا تقدس تخیلق کے پیرائے میں بیان ہوا ہے۔ اس کتاب میں تراجم اور شاعری بھی ہے، اور شاعری کئی اصناف میں ہے۔ کتاب کے آخر میں ‘ہماری ماں’ کے عنوان سے دس بارہ ادیبوں نے اپنی اپنی ماں کے خاکے تحریر کئے ہیں۔ کتاب کافی ضخیم ہے، اور اپنے موضوع کے متعلق کافی مواد رکھتی ہے۔

ماں

زیر نظر میکسم گورکی کے ناول mother  کا اردو ترجمہ “ماں” ہے جو 1906ء میں منظر عام پر آیا۔ روسی ادب میں اس ناول کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے جس نے میکسم گورکی کو اپنے ہم عصروں‌ میں ممتاز کیا۔ اس ناول کی کہانی ایک مزدور، اس کی ماں، اس کے چند دوستوں اور چند خواتین کے گرد گھومتی ہے۔ ناول “ماں” کا مرکزی کردار ناول کے ہیرو پاول کی بوڑھی، ان پڑھ ماں نلوونا ہے، جو انقلاب کے فلسفے سے قطعی طور پر لا علم ہے۔ وہ غربت میں پلی بڑھی مظلوم عورت ہے۔ وہ ایک سیدھی سادی عورت ہے جس کی زندگی تشدد اور ظلم سہتے ہوئے بسر ہوئی۔ اس نے اپنے خاوند اور سماج کے ستم برداشت کئے ہیں۔ اسے اپنے بیٹے پاول سے بہت پیار ہے۔ پاول وہ نوجوان ہے جو اپنے باپ کی وفات کے بعد فیکٹری میں ملازم ہو جاتا ہے۔ فیکٹری میں لوگوں سے مل کر انقلابی ذہن رکھنے والے دوستوں سے بحث مباحثے کے بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ صرف مزدور ہی ہیں جو نظام میں ایک تبدیلی لا سکتے ہیں۔ وہ سوشلسٹ دوستوں کے ساتھ مشاورتی نشستوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ پاول کی ماں فیکٹری میں کام کرنے والے دوسرے مزدوروں کی ماوں سے قطعی مختلف نہیں ہے لیکن جب اس کا بیٹا پاویل ساری فیکٹری اور ساری بستی کے طریقہ زندگی کو ٹھکرا کر انقلابی بن جاتا ہے تو اس کی ماں بیٹے کے شانہ بشانہ کھڑی ہوجاتی ہے۔ ناول میں ماں نلوونا کی راہ مزدوں کی انقلاب کی راہ بن جاتی ہے۔ میکسم گورکی کا یہ ناول عالمی شہرت رکھتا ہے اور دنیا کی تقریبا تمام زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔

ماں

منور رانا اردو اور ہندی شاعری میں ایك معتبر نام ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری سے کافی شہرت حاصل كی ہے۔ ان كا كلام ان كی آپ بیتی اور جگ بیتی كا آئینہ ہے۔ خود اپنے كلام كے متعلق كہتے ہیں كہ “میں توآپ بیتی كو جگ بیتی اور جگ بیتی كو آپ بیتی كے لباس سے آراستہ كركے غزل بناتا ہوں۔” جس میں اپنوں سے بچھڑنے كا غم، بچپن كی یادیں، وطن سے محبت، زندگی كی حقیقت اور ماں سے محبت كا عكس صاف دكھائی دیتا ہے۔ انھوں نے اپنے قلبی احساسات و جذبات كی ترجمانی كے لیے غزل كو ہی ذریعہ بنایا، خصوصا زیر نظر مجموعے میں شامل “ماں” پر لكھا كلام مقبول عام ہے۔ جس میں شامل غزل “ماں” اردو، ہندی اور بنگالی تینوں زبانوں میں شائع ہوچكی ہے۔ ماں كے ممتا بھرے مقدس رشتے كو شہرت كی بلندیوں پر پہونچانے میں منور رانا كا زیرنظر مجموعہ”ماں” بہت مشہور ہے۔ جس میں شاعر نے غزل كی ہیئت میں ماں كی عظمت، محبت، كردار كو اتنی خوب صورتی سے اشعار كے روپ میں ڈھالاہے کہ قاری میں اپنی ماں سے محبت كا احساس جاگ جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے یہ مجموعہ منفرد ومثالی ہے۔ اس طرح منور رانا نے غزل كو محبوب كی چنری سے نكال كرماں كے آنچل سے باندھ دیا۔ ان كی شاعری میں طرز احساس كے نئے انداز و آہنگ كی جدت اور كلاسیكی رنگ و آہنگ بھی ملتا ہے۔

ماں

زیر نظر کتاب “ماں” ارشد مینا پوری کا شعری مجموعہ ہے۔ یہ مجموعہ کافی ضخیم ہے۔ پورے مجموعے میں ماں کو محور بنا کر شاعری کی گئی ہے۔ ارشد مینا پوری ایک قادر الکلام شاعر ہیں، انہوں نے اس مجموعہ میں ایک ہی مضمون یعنی ماں کو بیسیوں ڈھنگ سے باندھا ہے۔ انہوں نے ماں کی رفعت اور جذباتی قدروں کا احترام کرتے ہوئے اس کی عظمت کو ممتاز قوقیت عطا کرنے کے لئے جس رچاو اور پختگی کا ثبوت دیا ہے، یہ ان کا ہی حصہ ہے۔ ان کے یہاں ماں کی عالمی جمالیاتی قدروں کے اظہار میں  تجربات کی جھلکیاں ہیں، شعلہ بار احساسات کی بیکرانی ہے، قوت نمو کے برگ و بار ہیں، اور تفکر سے بھرپور پوری کائنات کی طویل تمہید بھی۔ ان کی یہ فنکارانہ جہتیں اس کتاب کے ذریعے کئی اصناف سخن میں سامنے آئی ہیں۔ غزلیات کا ایک طویل سلسلہ ہے، گیتوں کی داستان ہے، اور نظموں کی سحرکاریاں ہیں۔ اس کے علاوہ مانجھی گیت، مرثیہ گیت، نوحہ گیت، لوری گیت، دوہا گیت، ریختی نظمیں، اور اس کے علاوہ کئی متروک اصناف سخن ہیں، جن میں ماں عظمت کے درخشاں اور تابناک آفتاب طلوع ہوئے ہیں۔

ماں تیرے نام

 زیر نظر کتاب “ماں تیرے نام” مناظر عاشق ہرگانوی اور شاہد نعیم کی مرتب کردہ کتاب ہے۔ جس میں انہوں نے ماں کی عظمت پر نظمیں، غزلیں، رباعیاں، لوری، ماہیا، دوہا اور گیت جمع کئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی مناظر عاشق ہرگانوی کی دو کتابیں ‘ماں’ اور ‘اے ماں’، اسی موضوع پر منظر عام پر آچکی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا مضمون، ‘اردو شاعری میں ماں’ بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا ماں کے موضوع پر اس اہمیت سے وقت دینا اس موضوع کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ اس کتاب میں شامل نظمیں اور غزلیں بہت دلچسپ ہیں۔ پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ صرف ایک مضمون کو کتنے طرح سے باندھا جاسکتا ہے، ہر شاعرنے اپنے انداز میں طرح طرح سے ماں کی عظمت اور بزرگی کو سخن کا جامہ پہنایا ہے۔

غریب ماں

“غریب ماں” محمد حسین جمیل کا ڈرامہ ہے۔ محمد حسین جمیل نے کئی اچھے ڈرامے لکھے جو اسٹیج بھی ہوئے، جن میں ‘اسیر شہزادی’ اور ‘غریب ماں’ کافی اہمیت کے حامل ڈرامے ہیں۔ ڈرامہ ‘غریب ماں’ ایک سماجی ڈرامہ ہے جس میں طبقاتی کشمکش کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس ڈرامہ کے ذریعہ اس کھوکھلے اور بے بنیاد تصور پر کاری ضرب لگائی گئی ہے کہ شرافت خاندانی ورثہ نہیں ہوتی اور نہ ہی علم، صلاحیت اور انسانی قابلیت رئیسانہ شان کی محتاج ہوتی ہے۔ ایک شخص شریف خاندان سے تعلق رکھ کر بھی شرافت کی سطح سے گر سکتا ہے اور ایک شخص مسی کاجل بیچنے والی کی اولاد ہوکر بھی ڈپٹی کلکٹر بن سکتا ہے۔ اس سب میں ماں کی تربیت اور دیکھ ریکھ کی بہت اہمیت ہے۔ اس ڈرامہ میں ایک ایسی غریب ماں کے کردار پر فوکس کیا گیا ہے جو اپنی محنت اور لگن سے سماج کے ہر طبقے سے آگے نکل جاتی ہے۔ جس کی تربیت اور کوشش اس کی اولاد کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے۔

ریختہ ای بکس دنیا کی سب سے بڑی اردو ڈیجیٹل لائبریری ہے، جس میں اب تک تقریباً سوا لاکھ کتابیں دستیاب ہو چکی ہیں۔ اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ‘ریختہ ای بکس’ میں ہر رنگ اور حظ کی کتابیں موجود ہیں۔ ریختہ نے اپنے قارئین کی سہولت کے مخصوص کلکشن اور موضوعات بھی ترتیب دئے ہیں، جہاں مختلف اصناف کی سب سے بہتر کتابیں پڑھنے کے لئے ہر وقت دستیاب ہیں۔ آپ ‘ریختہ  ای بکس’ لائبریری پر تشریف لائیں اور کتابوں کو پڑھیں، اپنی پسند کا اظہار کریں اور اپنے مفید مشوروں سے نوازیں۔ لنک حاضر ہے۔