لونگ چڑے کے کباب
ایم آر پبلی کیشنز میں میری ملاقات سید اقبال حسن صاحب سے ہوئی آپ رام جس اسکول سے پرنسپل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں۔ چونکہ میرے ہم پیشہ ہونے کی وجہ سے تعلیم وتدریس کے متعلق کافی دیر تک گفتگو ہوتی رہی، دوران گفتگو میری کتاب ” دہلی کے لوک گیت ” کا جب ذکر آیا تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ دہلی والے ہیں آپ نے لونگ چڑے تو ضرور کھائے ہوں گے۔ میں نے فخریہ جواب دیا ” ضرور کیوں نہیں، مجھے تو لونگ چڑے بہت پسند ہیں ” تو انھوں مجھ سے پوچھا کیا آپ کو اس کی وجہ تسمیہ معلوم ہے۔ میں نے کہا کہ جناب مجھے اس کی وجہ تسمیہ تو معلوم نہیں ہے۔ بس نام سنتے آئے ہیں اسی لیے ان کو اسی نام سے جانتے ہیں ۔پھر انھوں نے ایک واقعہ سنایا، وہ کہنے لگے کہ ایک صاحبہ جرمنی سے دہلی کے تعلق سے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے دہلی تشریف لائیں۔اسی سلسلے میں، میں انھیں لے کر دہلی کے بازار سوئی والان سے گزر رہا تھا کہ ہمدرد دواخانہ کی سوئی والان والی شاخ جوکہ گلی موچیان کے سامنے ہے لونگ چڑے کے کباب بکتے ہوئے دیکھے۔ وہ صاحبہ انھیں دیکھ کر رک گئیں اور مجھ سے دریافت کیا کہ ” یہ کیا ہے؟ ” میں نے انھیں بتایا کہ ” یہ لونگ چڑے کے کباب ہیں ” یہ سن کہ ان کے تجسس میں اضافہ ہوگیا۔ وہ کہنے لگیں کہ آپ مجھے اس سے متعلق پوری معلومات دیجئے۔ یہ میرے تحقیقی مقالے کا ایک باب ہوسکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ میں نے لونگ چڑے سے متعلق پڑھ رکھا تھا اور اس کی وجہ تسمیہ سے بھی واقف تھا۔۔ اس لیے لونگ چڑے سے متعلق تمام معلومات میں نے ان محترمہ کو بہم پہنچائیں۔۔ ان کی تمام گفتگو سن کر اب مجھے بھی لونگ چڑے کی وجہ تسمیہ جاننے کا تجسّس ہوا۔ تو میں نے اقبال حسن صاحب سے کہا کہ آپ ہمیں بھی اس کی وجہ تسمیہ بتائیے۔ انھوں نے لونگ چڑے کی جو وجہ تسمیہ بیان کی، سن کر بڑی حیرت ہوئی یہ وجہ تسمیہ ایک تشبیہ کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے ۔ لونگ چڑے” میں دو قسم کی پھلکیاں اور ایک بیسن کی سیخ ہوتی ہیں اس کے ساتھ سرخ کٹی ہوئی مرچ اور املی کی تیز چٹنی اور پیاز کےلچھے ہلکے زرد رنگ کی پھلکیاں جو پانی میں بھگو کر نرم کی جاتی ہیں ، بیسن کی سرخ رنگ کی پھلکیاں اور بیسن کے سیخ کباب ، اسی سیخ کباب کی نسبت سے یہ سب پھلکیاں لونگ چڑے کہلاتی ہیں۔ لچڑے کہلانے کی جو خاص وجہ ہے وہ یہ کہ جیسے گوریا چڑیا کے نر چڑے کے پروں پر کالے دھبے ہوتے ہیں اسی طرح سیخ پر چڑھا کر جب بسن کو سینکا جاتا ہے تو اس پر بھی چڑے کے پروں کی طرح دھبے پڑجاتے ہیں۔ اور پھر جب سیخ سک جاتی ہے تو اس کو سیخ سے اتارا جاتا ہے۔۔ چونکہ یہ گوشت کی سیخ کی طرح نرم نہیں ہوتی اس لیے دونوں جانب سے اس کا منہ کھلا رہتا ہے اس اندیشہ کے پیشِ نظر کہ کہیں کوئی کیڑا وغیرہ سیخ میں نہ گھس جائے اس لیے اس کا منہ دونوں طرف سے لونگ سے کیل دیتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کو لونگ چڑے کہا جاتا ہے۔
دہلی والے لونگ چڑے کے کباب بہت پسند کرتے ہیں بخار سے منہ خراب ہے تو چٹ پٹی چیز کھانی چاہیے تاکہ منہ کا مزہ اچھا ہوجائے اور اس کے لیے دہلی والوں کی پہلی پسند لونگ چڑے کے کباب ہیں عید، بقرہ عید پر تین چار دن کے لیے جگہ جگہ ٹھیے لگتے ہیں اس میں لونگ چڑے کے کباب کے علاوہ مچھلی کے کباب قیمے کی گولیاں بھی ہوتی ہیں۔ لونگ چڑے کے کباب کا سب سے اہم حصہ اس کی مرچ اور املی کی تیز چٹنی ہے اگر کوئی پہلی بار کھائے تو اس کے کانوں سے دھواں اور ناک سے پانی آنا شروع ہوجائے گا۔ یہی تیزی دہلی والوں کو خوب بھاتی ہے۔
اس تمام گفتگو سے میرے اپنے بچپن کی بہت سی یادیں تازہ ہوگئیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ “کواب مسالے، کواب مسالے” روزانہ دن میں گیارہ بجے یہ آواز سنائی دیتی۔ چھٹی کے دن ہم کو اس آواز کے سنا کا موقع ملتا اور ہم فوراً امّی سے پیسے مانگتے۔ کہ ہمیں پیسے دیجیئے کواب والا آگیا ہے ۔ دہلی والے کباب کو کواب ہی کہتے تھے اور اب بھی کہتے ہیں۔ دس پیسے لیے اور پہنچ گئے کباب والے کے پاس اور وہاں اچھی خاصی بھیڑ لگ جاتی تھی۔ چاروں طرف سے آوازیں بھائی کالے چار آنے کے کواب دےدو ذرا پہلے مجھے دے دو ایک طرف سے آواز آتی مجھے دس پیسے کے دے ذرا چٹنی بہت ساری رکھنا۔ کوئی کہتا بھائی کالے ذرا تھوڑی سی پیاز تو اور رکھ دو۔ کسی کو صرف سرخ پھلکیاں چاہیئیں۔ آٹھ آنے اور ایک روپے کے تو اچھے خاصے آجاتے تھے۔
یہ بھائی کالے دراصل باورچیوں میں سے تھے اور محلہ قبرستان میں رہا کرتے تھے محلہ قبرستان میں باورچیوں کا ایک محلہ ہے درگاہ حضرت شمس العارفین کے صدر دروازے سے لیکر بلبلی خانے تک یہاں زیادہ تر باورچی رہتے ہیں اور یہی وہ کھانے بھی پکاتے ہیں وہیں ایک اچھی خاصی ابھری ہوئی قبر ہے اس کے آگے ہی ایک چھوٹا سا گھر تھا جس کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا رہتا تھا یہی گھر بھائی کالے کبابی کا مکان تھا۔۔ ان کے دو بیٹوں سے میں واقف ہوں جو دونوں گونگے تھے جس میں سے بڑا بیٹا اپنے والد کی طرح یہی لونگ چڑے کے کباب بیچتا تھا اور دوسرا باورچی کا کام کرتا تھا۔ یہاں بھائی کالے کا ذکر یو کرنا پڑا کہ ہم نے ان کو ساری زندگی لونگ چڑے بیچتے ہوئے دیکھا تھا۔ ان سے متعلق بچپن کا ایک واقعہ مجھے اب بھی یاد ہے کہ میری ننھیال بجلی کا کام ہوا کرتا تھا۔ میرے نانا کو قرآت سنے اور ریکارڈنگ کرنے کا شوق تھا اس لیے ان کے پاس کئی ٹیپ ریکارڈر تھے ایک بار بھائی کالے۔ کواب مسالے کواب مسالے کی آواز لگا رہے تھے تو میرے ماموں نے ان کی آواز ریکارڈ کر لی جب بھائی کالے خاموش ہوئے تو ماموں نے ٹیپ ریکارڈر آن کردیا۔ اپنی آواز سن کر بھائی کالے کو بڑی حیرت ہوئی شاید انھوں ٹیپ ریکارڈر پہلی بار دیکھا تھا۔ آج یہ کتنا عام ہے۔کہ بچہ بچہ اس سے واقف ہے خیر۔ ان کے نام سے کوئی واقف نہیں تھا سب بھائی کالے کے نام سے ہی جانتے تھے۔ میرے گھر کے پاس ہی کلاں محل میں ان ایک رشتہ دار باورچی کی دکان ہے۔ مین ظہر کی نماز پڑھنے گیا تو اس پر میری نظر پڑ گئی۔اچانک مجھے یاد آگیا ۔ میں نے اس سے بھائی کالے کا نام پوچھا تو اس نے بتایا کہ ان کا نام قطب الدین تھا بتائیے ان کے جانے کے بعد ان کا نام معلوم ہوا۔
لونگ چڑے کے کباب پرانی دہلی میں اب بھی جگہ جگہ ملتے ہیں خاص طور پر جامع مسجد کے سامنے گلی سقے والی کے باہر سوئی والان میں ہمدرد دواخانہ کے دروازے پر لال کنواں ہمدرد دواخانے کے باہر اور باڑہ ہندو راؤ اور قصاب پورہ ( قریش نگر) ان کے ملنے کے خاص مقام ہیں۔ لونگ چڑے دہلی کے کھانوں میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں یہ دہلوی تہذیب کا حصہ رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔
NEWSLETTER
Enter your email address to follow this blog and receive notification of new posts.