Shamim Hanafi

…وحشت ہے بہت میر کو

زمانۂ طالب علمی میں اپنے جن اساتذہ پر مجھے فخررہا ہے،ان میں ایک نام پروفیسر شمیم حنفی (1938۔2021)کا بھی ہے۔وہ استاد کے ساتھ ساتھ ممتاز ادیب،دانش ور،کالم نگاراور شاعر تھے۔اردو، ہندی اور انگریزی ادبیات اوران کے معززاور معروف معاصر ادیبوں سے ان کی واقفیت تھی،بلکہ گہرے مراسم تھے۔ان کاانداز گفتگو ایسا پرکشش اور شگفتہ تھا کہ بس سنتے رہیے۔لوگ ان کی دانش وری کے ہی معترف نہیں تھے،بلکہ اس حافظے اور علم کے بھی، جس میں کتابوں اور مصنفین کے روشن حوالے آتے تھے۔یہ تجربہ بھی بارہا ہوا کہ ان سے چند منٹ کی گفتگو ہمیں دیر تک سرشار ی وشادمانی کی کیفیت میں رکھتی۔

شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایم اے اردو (2001)کے پہلے سال میں شمیم صاحب سے غزل پڑھنے کا موقع ملا۔ ان کے لیکچر ہی جدید اور جدیدیت سے وابستہ شعرا سے قربت کا ذریعہ بنے۔فراق گورکھپوری سے عمیق حنفی تک جدید شاعروں کی ایک کہکشاں انھوں نے ہمارے سامنے اس طرح روشن کررکھی تھی کہ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا کہ یہ تمام شعرا ہمارے ہی ملاقاتی ہیں۔کسی شاعر کے نام کے آگے صاحب لگاتے ہوئے پہلے پہل شمیم حنفی صاحب ہی کو دیکھا تھا۔فراق گورکھپوری کا نام جس احترام اور اہتمام سے وہ لیتے اور ان کے نام کے ساتھ صاحب کا لاحقہ لگاتے تھے، اس کی مثالیں کم ملیں گی۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ انھوں نے کبھی صاحب کے بغیر فراق گورکھپوری کا نام لیا ہو۔یہ محض فراق کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف نہیں تھا بلکہ اس میں ایک شاگرد کی عقیدت ومحبت بھی شامل تھی۔شمیم صاحب اپنے اساتذہ کا ذکرنہایت عزت اور احترام سے کرتے اور ان کی خوبیاں اس طرح بیان کرتے کہ اسے سن کر استاد شاگرد کی مثالی قدروں کی یاد تازہ ہوجاتی۔اس میں فراق گورکھپوری،سید احتشام حسین،پروفیسر ستیش چندر دیو اور الہ آباد یونی ورسٹی کے دیگر اساتذہ کے ساتھ ساتھ سلطان پور کے ان اساتذہ کا ذکر بھی شامل ہوتا،جن سے انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔فراق صاحب کے قصے،واقعات اور بہت کچھ وہ اس طرح سناتے کہ کچھ دنوں بعد ہم بھی شمیم حنفی کے ساتھ فراق صاحب کی محفل میں خود کو موجود پاتے تھے۔غزل کی اسی کلاس میں پہلی بار فراق گورکھ پوری کی آواز بھی ہمیں سنائی گئی۔ایک روز کلاس میں گئے تو دیکھا کہ ٹیپ ریکارڈ رکھا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ شمیم صاحب ایک کیسٹ لائے ہیں جس میں فراق گورکھ پوری کا ایک انٹرویو ہے اور ان کا کلام بھی۔اس وقت تک فراق سے متعلق شمس الرحمن فاروقی کی کوئی تحریر نظر سے نہیں گذری تھی اور نہ میں نے پروفیسرملک زادہ منظوراحمد کا وہ مضمون پڑھا تھا جو’گہ ایزد وگہ اہرمن‘کے عنوان سے ماہنامہ ’نیا دور‘لکھنؤ کے فراق نمبر میں شائع ہوا تھا۔کیسٹ کے اس دلچسپ انٹرویو کا ایک سوال یہ بھی تھا کہ آپ پہلے میر وغالب سے متاثر ہیں یا کسی اور سے؟فراق گورکھ پوری نے کسی توقف کے بغیر کہا کہ میں اپنے آپ ہی سے زیادہ متاثر ہوں، اسی لیے میرے یہاں ’میریت‘کم اور ’فراقیت‘زیادہ ہے۔ ہم لوگ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے۔اس کے بعدفراق کو کلام پڑھتے ہوئے بھی سنوایا گیا۔بھاری بھرکم آواز اور لہجے کا اتار چڑھاؤ لطف دے گیا۔ ایم اے کے پہلے سال کا وہ دن ہمارے لیے یادگاربن گیا۔

پروفیسر شمیم حنفی غزل پڑھاتے وقت بالعموم متن سامنے نہیں رکھتے تھے۔بس کسی طالب علم کے مطلع پڑھنے کی دیر رہتی کہ اس کے بعد پوری غز ل ان کے حافظے میں تازہ ہوجاتی۔’پہلی بارش‘ کی بیشتر غزلیں انھیں یاد تھیں۔ناصر کاظمی،خلیل الرحمن اعظمی،ظفر اقبال،شہریار،احمد مشتاق،زیب غوری،بانی،حسن نعیم،کمار پاشی،من موہن تلخ، عمیق حنفی اور بہت سے شعرا کے نام اور کلام سے تعارف انھیں کے توسط سے ہوا۔ان کی کتاب ’غز ل کا نیا منظرنامہ‘اس وقت تک کم یاب ہوچکی تھی۔ڈاکٹر ذاکر حسین لائبریری (جامعہ ملیہ اسلامیہ)میں بھی نہیں ملتی تھی،بڑی مشکل سے ریڈنگ روم کی لائبریری سے اشوکراکے اس کی عکس بندی کی گئی اور پھراس کا اجتماعی مطالعہ کیا گیا۔اس وقت تک جدید شعرا پر بہت زیادہ لکھا بھی نہیں گیا تھا اور اگر کچھ تھابھی تو اس کا حصول آج کی طرح آسان نہیں تھا۔پی ڈی ایف فائل اور اطلاعاتی ٹکنا لوجی کی دیگر سہولتیں ابھی پردہئ خفامیں تھیں۔اس وقت تک فوٹو کاپی مشین ہی الہ دین کا چراغ ہوتی تھی۔جدید شعراسے تعارف اور ان کو جاننے کا مزید موقع اس کتاب کے مطالعہ کے بعد ہی ملا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شمیم صاحب کی وجہ سے فراق گورکھ پوری اور ناصر کاظمی کو پڑھنے کے مواقع زیادہ میسر آئے اور پھر کچھ دنوں کے بعد ہی غیر شعوری طور پر یہ ہمارے ادبی ذوق کا حصہ ہوگئے۔

پروفیسر شمیم حنفی اشعار کی تعبیر و تفہیم میں شعر کے تکنیکی پہلو پر توجہ زیادہ نہیں دیتے تھے۔بعض فنی خوبیوں کی طرف کبھی کبھی اشارہ ضرور کرتے۔ اگر کبھی کسی نے سوال کیا تو مصرعے کی نثر اس طرح کرتے تھے کہ سب کچھ واضح ہوجاتا۔ایک بارناسخ کو پڑھاتے وقت کہنے لگے کہ تمام شعرا کو یکساں دلچسپی سے پڑھنا صرف اور صرف شمس الرحمن فاروقی کا کارنامہ ہے اور پھر بہت دیر تک شعری تنقید سے متعلق فاروقی صاحب کے کارناموں پر روشنی ڈالتے رہے۔ 2003میں شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گیسٹ فیکلٹی کے لیے جب مقامی سلیکشن کمیٹی کے سامنے میں پیش ہوا تو صدر شعبہ اور ڈین فیکلٹی کے علاوہ پروفیسر شمیم حنفی بھی موجود تھے۔ اس موقع پر انھوں نے خالص تکنیکی اور لسانی نوعیت کے سوالات کرکے مجھے حیرت میں ڈال دیا۔خیال آیا کہ ان سوالات کو نوکری کے اس پہلے مرحلے میں آگے کی تیاریوں کے لیے زادراہ کے طور پر اختیار کرنا چاہیے۔اساتذہ کی تربیت اور رہنمائی کے ہزار پہلو ہیں۔

Shamim Hanafi

پروفیسر شمیم حنفی ایسے استاد تھے جن کا تعلق شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وظیفہ یاب ہونے کے بعدبھی مستقل اور مستحکم رہا۔گذشتہ پندرہ برسوں کے دوران شعبۂ اردو کی علمی وادبی سرگرمیوں کا بہ مشکل ہی کوئی ایسا موقع ہو گا جہاں وہ موجود نہ رہے ہوں۔شعبہ کے طلبا سے ان کاوالہانہ تعلق اور اساتذہ کے دلوں میں ان کے تئیں محبت و احترام کے جذبے نے ایک نئی فضا قائم کررکھی تھی۔محبت و عقیدت کا یہی جذبہ خود بخود رشتوں کے تقدس کا ایک نیا باب رقم کررہا تھا۔ حساس ہونے کے باوصف خوش مذاقی ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو تھی۔شمیم صاحب جب طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے تو ان کی استادانہ ہنر مندی قابل دید ہوتی۔ان کی شخصیت خوش لباسی اور نفاست کا مرقع تھی۔خوش اطواری میں وہ قدما کی Legacy کے امین تھے۔وہ اپنی یافت کو دوسرے کے کھاتے میں ڈال کر خوش ہونے کا ہنر بھی رکھتے تھے۔ان کی ذات کا یہی رویہ طلبہ کی حوصلہ افزائی کا سرچشمہ تھا۔جامعہ کے ابتدائی دنوں میں ہی کسی تقریب کے دوران میں ان کا یہ جملہ آج تک محفوظ سماعت ہے”انتخاب تو کوئی بھی کرسکتا ہے،کوشش کیجیے کہ ہر معاملہ میں آپ کاذوق حسن انتخاب کا درجہ پاجائے“۔جامعہ کے علاوہ دیگر یونی ورسٹیوں کے ریسرچ اسکالر ان سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ادب و شعر کے علاوہ صحافت،ڈرامہ نگاری اور ہندی ادب سے بھی شمیم صاحب کی گہری واقفیت تھی۔خاص طور پرڈاکٹریٹ کے مقالوں کے موضوعات اور ابواب بندی کے لیے نہ جانے کتنوں نے ’ذاکر باغ‘ کا رخ کیا اور کبھی کوئی مایوس ہوکر نہیں لوٹا ہوگا۔پی ایچ ڈی کے موضوع کے سلسلے میں مجھے نہ صرف ان کی رہنمائی حاصل رہی بلکہ ابواب بندی کے سلسلے میں رہنما خطوط انھوں نے ہی طے کیے تھے۔ وہ بہت تیزی کے ساتھ لکھتے۔کاغذ پر قلم دبا کرنہیں بلکہ محسوس ہوتا کہ کاغذ پرقلم تیر رہا ہے۔گفتگو اور لیکچرکا تسلسل ٹوٹتا ہی نہیں تھا، بلکہ مجھے بارہا یہ محسوس ہواکہ کاغذ پر تیرتے قلم کی طرح الفاظ بھی منہ سے نکلنے کے لیے بے تاب ہوں۔عام طو رپر سفید،چکنے اور بغیر سطر والے کاغذپردونوں طرف حاشیہ چھوڑ کر لکھتے تھے۔صفحہ نمبر ہمیشہ وہ دائیں جانب عدد کے بجائے حروف میں لکھتے۔تحریر صاف اور واضح ہوتی تھی کہ کسی کو بھی پڑھنے میں دشواری نہیں ہوسکتی تھی۔البتہ بعض حروف کے ساتھ ان کا رویہ اتنا دلکش ہوتا کہ اس تحریر میں مزیدحسن پیدا ہوجاتا تھا۔

پروفیسر شمیم حنفی کی طرح شگفتہ گفتگو کرنے والے میں نے کم دیکھے ہیں۔ عام گفتگو ہو یا کوئی لیکچراحمد فراز کے اس مصرعے کی یاد تازہ ہوجاتی تھی

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

اور جی چاہتاکہ سلسلہ کلام ختم نہ ہو۔کلاس کے علاوہ شعبہ میں ہر وقت ان کی محفل آباد رہتی۔طلبہ کو سال کے شروع میں یہ سخت ہدایت تھی کہ کلاس کا وقت ہوتے ہی آجائیں،یہ عذر کبھی نہ پیش کیا جائے کہ میرے پاس کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔شمیم صاحب کے جو بھی ملاقاتی ہوتے انھیں یہ معلوم تھا کہ کلاس کا وقت ہوتے ہی یہ محفل برخاست ہوجائے گی۔اس اصول سے چند ساعتوں سے انحراف کی گنجائش اس وقت پیدا ہوتی جب کوئی مہمان دلی سے باہر کا ہوتا۔ ان کی محفلوں کی غیر رسمی گفتگو کے ہزار موضوعات تھے۔ ان کے ملنے والوں کا دائرہ صرف اردو تک محدود نہیں تھا بلکہ ہندی،انگریزی کے علاوہ موسیقی،آرٹ اور دیگر فنون کے وابستگان سے بھی ان کے گہرے مراسم تھے۔غالباً اسی لیے ان کی گفتگو کے حوالے متنوع اور پہلودار ہوتے تھے۔وہ میر وغالب،اقبال اور فیض پر جس طرح گفتگو پر قادر تھے اسی طرح ٹیگور،کبیر اور سور داس پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ہندی کی ادبی روایت،اردو کی تہذیبی وراثت اور کیا کچھ نہیں تھا جس کا ذکر ان محفلوں میں ہوتا رہتا تھا۔غالباًایک بار منٹو کی زبان پر گفتگو کررہے تھے کہ بات گورکی اور چے خف تک پہنچ گئی۔اسی موقع پر’اداس نسلیں‘کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بھی گالیاں ہیں مگر اس نوع کی زبان کے سلسلے میں نام منٹو کا لیا جاتاہے۔وہ یہیں پر نہیں رکے بلکہ ہندی کے معروف ادیب نامور سنگھ کا نام لے کر ان کے بھائی کاشی ناتھ کا تعارف بھی کرایا کہ انھو ں نے گالیوں پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اورپھراپنی تمام تر وضع داری کے باوجود یہ کہنے میں تامل سے کام نہیں لیا کہ ”کسی بھی زبان کی تخلیقی طاقت کا سب سے بڑا اظہار اس زبان کی گالیاں ہوتی ہیں“۔

جشن ریختہ 2015میں ایک سیشن اردو ہندی زبانوں سے متعلق قربتیں اور فاصلے کے عنوان سے تھا، جس میں شمیم حنفی صاحب کے ساتھ گفتگو کرنے کے لیے ہندی کے مشہور ادیب پروفیسر اشوک واجپئی موجود تھے۔بی بی سی کے پرویز عالم اس سیشن کے منصرم تھے۔دونوں شخصیات کے انداز بیان اوردلچسپ طرز اظہار نے پورے ہال میں ایک بصیرت آمیزمسرت کی کیفیت پیدا کررکھی تھی۔شمیم حنفی نے کہا تھاکہ ”قربتیں تاریخ نے دی ہیں جبکہ فاصلے سیاست کی پیدا وارہیں“۔ قربتوں سے جب گفتگو کا رخ فاصلوں کی طرف چلا تو کہی اور ان کہی کی صو رت میں بھی دونوں بزرگوں نے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا۔شمیم حنفی باوجود یکہ اردو اور ہندی کے ادیبوں سے بے حد قریب تھے اور اپنی وضع داری کے سبب بھی دونوں حلقو ں میں ایک خاص شناخت رکھتے تھے، ان سے اشوک واجپئی نے بڑا معنی خیز سوال کیا کہ ہندی والوں نے تو اردو سے اپنی دوری کم کرلی ہے کیونکہ انھوں نے تراجم کی شکل میں اردوکے بڑے سرمایے کو ہندی میں منتقل کرلیا ہے مگر اردو نے ہندی سے اپنی دوری شاید کچھ بڑھا لی ہے۔شمیم صاحب تمام تر تہذیبی شرافت کے باوجود یہ کہنے کے لیے خود کو روک نہیں پائے کہ گذشتہ ستر برسوں کے دوران اردو کو جن آزمائشوں سے گذرنا پڑا ہے اس کا اندازہ آل آحمد سرور کے اس مصرعے سے ہوتا ہے ؎

کس قدر پیاری زباں اور کتنی دکھیاری زباں

انھو ں نے کہا کہ زبان کے وجود کی بقاکی جنگ اور خوف کی نفسیات کے ساتھ اردو والوں نے آزادی کے بعد سے اب تک کا طویل سفر طے کیا ہے۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ایسے عالم میں زبان کا تحفظ ہوجائے یہی بہت بڑاکام ہوگا چہ جائیکہ ہم اپنے ادب میں کوئی نیا تجربہ کریں۔ویسے بھی رسم الخط کو لے کر جس طرح کے اندیشے تھے اس نے بھی قربت کے اس زاویے پرایک انجانے خوف کا پہرہ بٹھا رکھا ہے۔یہ جواب ایسا برمحل اور بے تکلف تھا کہ پورے مجمع پر اک عجب سی لہر دوڑ گئی۔یہ جواب اس لیے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ جواب دینے والا اس حلقے کے لیے انتہائی متعارف تھا اور اس محفل میں دیگر زبانوں کے ادب اور فنون سے وابستہ لوگوں کی ایک قابل لحاظ تعداد موجود تھی،جو شمیم حنفی کے جواب میں پنہاں کرب سے کماحقہ واقف تھی۔

Shamim Hanafi

شمیم صاحب کا حافظہ غضب کا تھا۔ان کی ذات حافظے کے کمالات سے عبارت تھی۔غزلوں کے اشعار یاد رہنا کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن میرا جی اور ن م راشد کی نظموں کا بھی ان کی نوک زبان پر ہونا واقعی کمال کی بات تھی۔محمدحسن عسکری کے تنقیدی جملے،پریم چند کے خطوط کے اقتباسات،نسخہ حمیدیہ سے غالب کے اشعار،دوہے،چھند اور نہ جانے کیاکیا بلکہ کبھی کبھی تو ہندی اور انگریزی کے اقتباسات بلا تکلف بولتے چلے جاتے تھے۔نظیر اکبرآبادی،اقبال،ناصر کاظمی،احمد مشتاق اور فیض احمد فیض کے تو وہ جیسے حافظ تھے۔کوئی بھی گفتگو کتابوں کے ذکر کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی تھی۔ حافظہ کی اسی قوت کی بدولت ان کا عام لیکچر بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوجاتا تھا۔شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بہت سے لیکچر اسی سبب سے یادگار ہیں۔ستمبر2016میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی (حیدرآباد)کے شعبۂ اردو کے داغ دہلوی سمینار کا کلیدی خطبہ پروفیسر شمیم حنفی نے دیا تھا۔سمینار کے آخری دن دلی سے ہندی کے مشہور ادیب اور صحافی ریوتی سرن شرما کی سناؤنی آگئی۔شمیم حنفی کی موجودگی کو غنیمت جانتے ہوئے پروفیسر ابوالکلام اور جناب انیس اعظمی نے سمینار کے دوران ہی تعزیتی نشست کا اہتمام کرڈالا۔حنفی مرحوم نے ایسی جامع تقریر کی کہ اہالیان حیدرآباد استعجاب کے عالم میں ڈ وب گئے۔یہ ایک حیران کن لمحہ تھا، حالانکہ دلی والے اس طرح کے بے شمار مواقع پر شمیم صاحب کے برجستہ اور زوردار خطاب سننے کے عادی تھے۔یہ وضاحت ضروری ہے کہ ریوتی سرن شرما اور انتظار حسین ہاپوڑکے ایک ہی محلہ کے رہنے والے تھے۔ بچپن کی گہری دوستی کو سرحد کی لکیر یں ختم نہیں کرسکیں۔ ایام طفولیت کی یادوں اور فراغت کے لمحات کو دونوں تاعمر نہیں بھلا سکے۔انتظار حسین پاکستان سے ہندستان آتے رہتے اور عام طو پر ریوتی سرن شرما کے یہاں ہی قیام کرتے تھے۔بتانے والے بتاتے ہیں کہ شرما جی کے یہاں ایک کمرہ انتظار حسین کے لیے مختص تھا۔شمیم صاحب سے انتظار حسین کی دوستی ملکوں کی تقسیم کا شکار نہیں ہوسکی،شاید اسی لیے کچھ لوگ ہندوپاک کی مشہور رفاقتوں میں اس دوستی کو بھی شمار کرتے ہیں۔یہی مقدس رشتہ شمیم حنفی کے لیے شرما جی تک رسائی کا سبب بنااوریہ مثلث دوستی کا تاریخی استعارہ بن گیا۔تعزیتی نشست میں شمیم حنفی نے رشتوں کے اس ڈور کی طرف اشارہ کیاجسے ہزارکوششوں کے باوجود سیاست کمزور نہیں کرپائی۔مگر وقت سے ہر کوئی ہار جاتا ہے۔اب جبکہ دوستی کی یہ تثلیث بظاہر دم توڑ چکی ہے لیکن مقدس رشتوں کایہ سیاق اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کے حسن کو جاننے والے انھیں یاد کرتے رہیں گے۔شمیم صاحب جس تہذیبی تمکنت اور ثقافت کے عمر بھر شارح اورمبلغ رہے،اس کے موید تو پروفیسر خالد محمود،پروفیسر وہاج الدین علوی،پروفیسر شمس الحق عثمانی،ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی، پروفیسر شہپر رسول،پروفیسر عبدالرشید اور پروفیسر احمد محفوظ ہیں،جن کے ساتھ مرحوم نے زندگی کا ایک بڑا حصہ گذرا۔

شمیم صاحب اپنی ادبی اور تہذیبی روایت پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ معاصر ادب کے رویوں اور رجحانات سے بھی انھیں غیر معمولی شغف تھا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ کی دانش وری کے بھی وہ شناور تھے۔دلی کی ادبی،تہذیبی اور معاشرتی تاریخ کو وہ اسی طرح جانتے تھے جیسے اپنے آپ کو۔ الہ آباد،اندور،علی گڑھ اور آخر میں انھوں نے دلی کو محض ایک شہریااپنی زندگی کے اچھے برے دنوں کی یاد کے طور پر دیکھنے کی کبھی سعی نہیں کی بلکہ ان شہروں کوتعلیم و تعلم اور تاریخ و تہذیب کے تناظر میں دیکھا۔ان کی یادوں میں الہ آباد اور علی گڑھ اس طرح رچ بس گیا تھا کہ گفتگو کے بہت سے پیرائے یہیں سے بنتے تھے۔ ان شہروں کی خوشبواور ادبی روایت کی ایسی چاشنی تھی کہ آپ سنتے جائیں اور سردھنتے جائیں لیکن بیان ختم نہیں ہوگا۔علی گڑھ کا ذکر خلیل الرحمن اعظمی کے بغیر اسی طرح ادھورا تھا جس طرح ان کی گفتگو میں الہ آباد فراق کے بغیر مکمل نہیں ہوتاتھا۔یہ دونوں شخصیات شمیم صاحب کے نزدیک تہذیبی قطبین کی حیثیت رکھتی تھیں اور شمیم حنفی کا ذہن ان دونوں سے بیک وقت قوت کشید کرتا تھا۔ان کی ادبی شہرت اور ناموری کے ز مانے میں جب پاکستان گھر آنگن کی طرح ہوا تو ان کی گفتگو میں کئی اور شہر اور اس کے مکیں آباد ہوتے چلے گئے،جس میں انتظار حسین اور کشور ناہید کا نام سر فہرست تھا۔اسی دوستی کا یہ ثمرہ تھا کہ پاکستان کے بہت سے ادیبوں اور فن کاروں کانام شمیم حنفی کی غیر رسمی مجلسوں سے ہوتا ہوا ہندستان کے ادبی حلقوں تک پہنچا۔

پروفیسر شمیم حنفی تاریخ اور تہذیب کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے یہاں تہذیبی بانکپن اور اس کے جبر کے بہت سے پہلوتاریخی مکالموں کی صورت میں ملتے ہیں۔ماضی ان کے نزدیک تہذیبی بانکپن کا کنایہ ہے۔ اسی سبب وہ ناصر کا ظمی کا ذکر اکثر وبیشتر یاد نگر کے تناظر میں کرتے تھے، مگر یہ یاد دراصل تہذیبی جبرکو جنم دیتی تھی۔شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سالانہ ’فراق یادگاری خطبہ‘ میں انھوں نے ’ناصر کاظمی کا یاد نگر“کے موضوع پر ایک خطبہ دیا تھا۔انھوں نے ایک طرف جہاں ناصر کا ظمی کی شاعری اور اس کی حسیت کو آئینہ دکھا یا تھااور اسے ایک خاص انداز میں پیش کیا تھا،ماضی کی یہ وہی یادیں ہیں جن سے ناصر کاظمی خود کو کبھی الگ نہیں کرپائے۔ناصر کاظمی کی مشہور نظم ’نشاط خواب‘جوکہ ’انبالہ‘ سے متعلق ان کی یادوں کا حسین گلدستہ ہے، اس کے چند اشعار تو شمیم صاحب کی زبان سے سن سن کر یا دہوگئے تھے ؎

مرغابیاں تلی ہوئی تیتر بھنے ہوئے
خستہ کباب سیخ کے اور نان روغنی
صندل،کنول، سہاگ پڑا،سہرا،عطر پھول
لائی سجا کے تھال میں اک شوخ کامنی
انبالہ ایک شہر تھا سنتے ہیں اب بھی ہے
میں ہوں اسی لٹے ہوئے قریے کی روشنی

اشعار سناتے تو ’نان روغنی‘ کا ذکر بھی چل پڑتا۔ پہلے دہلی کی اکیس قسم کی روٹیوں کا ذکر کرتے۔ بعض روٹیوں کی شکل و صورت اور ان کا ذائقہ وہ اس طرح بیان کرتے کہ جی چاہتا کہ کلاس چھوڑ کر پہلے روٹی ہی کھالی جائے۔مجھے اکثر یہ محسوس ہوا کہ ناصر کا ظمی اور ’مٹی کا بلا وا‘دراصل پروفیسر شمیم حنفی کی خود نوشت کی شکلیں تصور کی جانی چاہیے۔ڈرامہ ’مٹی کا بلا وا‘میں ایک کردار حکیم صاحب کاہے،ان کی زبان سے ایک جملہ کئی بار ادا ہوا ”تو جارہے ہو بھائی عنایت حسین“۔ماس میڈیا کے نصاب میں یہ کتاب شامل تھی اسی لیے اس کے ایک بڑے حصے کی بلند خوانی کلاس میں کی گئی تھی۔یہ جملہ ایک بار شمیم صاحب نے اپنے خاص آہنگ میں ادا کیا تھا اور جملے کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے ان کی سانسوں کی مدھم رفتار نے بہت کچھ واضح کردیا تھا۔ایسا محسوس ہوا کہ ڈرامہ لکھتے ہوئے وہ سلطان پور کی ان گلیوں میں پہنچ گئے تھے جن سے ان کے بچپن کی یادیں وابستہ تھیں۔ اور یہ ان کے کردار کی نہیں بلکہ ان کے دل کی آواز تھی۔ اسے کھوئے ہوؤں کی جستجو ہی کہنا چاہیے کہ ان کی بچپن کی یاد وں میں سلطان پورکی وہ روٹی بھی شامل ہے جسے ان کے والد کے موکلین مقدمہ کے سلسلے میں گھر سے متصل احاطہ میں قیام کرتے تو بناتے تھے۔ایک خاص قسم کی روٹی جسے عرف عام میں ’لٹی‘کہتے ہیں۔شمیم صاحب کہتے کہ میں ان روٹیوں کو بہت حسرت بھری نگاہ سے دیکھتا کہ کاش یہ مجھے بھی کھانے کو مل جاتیں۔دھیرے دھیرے یہ ساری چیزیں ہمارے اجتماعی حافظے سے ہی رخصت نہیں ہوئیں بلکہ ان کی شکلیں اس طرح بدل بھی گئیں کہ یہ سب کچھ تہذیبی زیاں کی مختلف صورتیں بنتی چلی گئیں جس کا سبب شمیم حنفی کے بقول صارفیت کے علاوہ کچھ نہیں۔

پروفیسر شمیم حنفی شاعر بھی تھے۔ان کا کلام رسالوں میں چھپتا رہا ہوگامگر میں نے اولاً شعبہئ اردو،جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وال میگزین میں انھیں پڑھا تھا۔اس کے بہت بعد بعض رسائل کی پرانی فائلوں میں ان کاکلام دیکھنے کو ملا۔جامعہ کے بعض مشاعروں میں بھی انھیں کلام پڑھتے ہوئے سننے کا موقع ملا۔دلی اردو اکیڈمی ہر برس اساتذہ کے ایک مشاعرہ کا اہتمام کرتی ہے۔پروفیسر قمر رئیس صاحب جب وائس چیرمین تھے تو ایک بار یوم اساتذہ کا مشاعرہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انصاری آڈی ٹوریم میں منعقد ہوا۔بہ حیثیت شاعرشمیم حنفی بھی مدعو تھے مگر اس دن مشاعرہ پڑھتے وقت اسٹیج پر ان کا وہ تخلیقی جمال دیکھنے کو نہیں ملا جس کے لیے وہ جانے جاتے تھے۔دراصل مشاعروں کی عوامی روایت میں جہاں صف سامعین سے جملے بازی کا بھی ایک سلسلہ چل پڑا ہے، غالباً اسی سبب سے وہ بہت جلدی جلدی شعر پڑھ رہے تھے۔سامعین سے دلی کے مشہور شاعر شہناز ندیم ضیائی مرحوم نے توجہ دلائی کہ ہم لوگ آپ کو سن رہے ہیں اور آپ اطمینا ن سے شعر پڑھیں۔ایک دوروز بعد کسی عنوان سے مشاعرہ کا ذکر آیا تو جامعہ کے پرانے مشاعروں کے حوالے سے کہنے لگے کہ طلبہ کا شور وہنگامہ اور درمیان میں اٹھنے والی آوازیں،ان میں نہ معلوم کون سا جملہ اچھال دیا جائے۔یہ میرے لیے اک انجانے خوف کا سبب بنارہتا ہے اور اسی لیے میں نے مشاعروں سے گریز کیا ہے۔ریختہ فاؤنڈیشن نے ان کے کلام کو کتابی شکل میں شائع کرکے ان کے تخلیقی نقوش کو بھی ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا ہے۔

Shamim Hanafi

پروفیسر شمیم حنفی انیسویں صدی کو دیو زادوں کی صدی قرار دیتے اور کہتے کہ کیسے کیسے عبقری اس صدی میں پیدا ہوئے۔غالب کے علاوہ سرسید،،حالی،محمد حسین آزاد،مولوی ذکاء اللہ اور شبلی نے کیا کیا کارنامے انجام دیے۔جبکہ بیسویں صدی کو تشدد سے بھری صدی قرار دیتے اور اسی لیے اکثر وہ کہتے کہ یہ خون خرابے کی صدی ہے۔کیسے کیسے خوں آشام واقعات اس صدی کی یادگار ہیں۔تقسیم ہند کوانسانی خون کی پامالی کا نہایت درد ناک واقعہ قرار دیتے۔وہ کہتے کہ ایسی وحشت ناک اور ڈراونی صدی ہم اپنے بچوں کے لیے چھوڑ کے جارہے ہیں۔ ان کے غوروفکر کا شاید یہی پہلو تھاکہ جس کے سبب ان کے یہاں بیزاری اور وحشت کا پہلو نمایاں ہوگیاتھا۔یہاں تک کہ ان کے روز مرہ میں لفظ ’وحشت‘بہت زیادہ دخیل ہوگیا تھا۔ دراصل انسانی المیہ کی متعدد صورتوں اور عصر خاصر کے خرابے نے ان کے یہاں بیزاری اور بیگانگی کی جو کیفیت پیدا کر دی تھی، ادبی جلسوں،نجی محفلو ں اور کلاس روم تک میں وہ اس وحشت اور بیزاری کا اظہار اکثر کرتے رہتے تھے۔ایک بار کلاس کے ایک ساتھی نے لیکچر کے دوران ہی کہہ دیا کہ سر آپ کو تو ہر چیز سے وحشت ہوتی ہے، پھررہتے کیسے ہیں۔سرنے طالب علم کی طرف دیکھا اور نیم مسکراہٹ کے بعد کہا کہ زندگی تو بہر حال گذارنی ہے۔اس سے فرار کا راستہ کوئی نہیں ہے مگر اپنے تحفظات کے اظہار میں کسی قدر آزادی تو رہنی چاہیے۔

تعلیمی اداروں اور دانش گاہوں میں ہونے والے بعض خلاف واقعہ درپیش مسائل پربھی وہ اسی طرح حیرت کا اظہار کرتے کہ جیسے وہ کچھ جانتے ہی نہ ہوں۔دراصل وہ اپنی دنیا میں جینے اور مست رہنے والے انسان تھے۔واقعات و حادثات سے باخبر رہنے کے باوجود ان کو بطور وظیفہ اختیار کرنے کی ان میں عادت ہی نہیں تھی اور اسی لیے جب کوئی اس کا ذکر کرتا تو حیرت سے اس کا منہ تکتے اور کہتے ’اچھا یہ بھی ہوا ہمیں نہیں معلوم‘۔اسے ان کی معصو میت سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے مگر ان کی وضع داری اور خوش خلقی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنے سے گفتگو کرنے والے کو مایوس نہیں کرتے تھے اور اس طرح کے جملوں سے اس کی توجہ اور سنجیدگی کا لطف دوبالا کردیتے۔

پروفیسر شمیم حنفی کا تعلق اترپردیش کے سلطان پورسے تھا۔والد محترم محمد یسین نے علی گڑھ سے وکالت کی ڈگری حاصل تھی۔شمیم صاحب نے ابتدائی تعلیم سلطان پور سے حاصل کی اور اس کے بعد الہ آباد یونی ورسٹی سے بی اے ایم اے اور ڈ ی فل کیا۔ڈی فل کو پی ایچ ڈی کا ہی دوسرا نام دیا جاتا تھا اور یہ کام انھوں نے اردو کے مشہور ترقی پسند ادیب سید احتشام حسین کی نگرانی میں کیا۔ دراصل ان کے ادبی شعورکو احتشام حسین نے ہی جلا بخشی۔اس ز مانے میں الہ آباد یونی ورسٹی کو واقعتاایک دانش کدہ کی حیثیت حاصل تھی۔رسمی تعلیم کے بعدشمیم حنفی نے چندبرس اندور میں تدریسی خدمات انجام دیں اور یہیں سے ان کا تقرر شعبہئ اردو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر ہوا۔یہاں سے انھوں نے ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔ان کا تدریسی سفر کئی نسلوں کی ادبی تربیت پر منتج ہوا۔

مرحوم استاد گرامی سے گذشتہ برس مجتبیٰ حسین کے سلسلے میں آن لائن تعزیتی جلسے میں ملاقات ہوئی تھی۔یہ برس شروع ہوا تو جنوری کے آخری دن انجمن ترقی اردو ہند کے ایک پروگرام میں ان سے گفتگو کرنے اور ان کے خیالات سے استفادہ کاموقع ملا تھا۔ابھی کچھ دنوں پہلے یہ خبر ملی کہ اب وہ جسولہ میں اپنے نئے گھرمیں منتقل ہورہے ہیں۔ذاکر باغ والے گھر میں متعدد بار ملاقات اور گفتگو کا موقع ملا تھا۔اس نئے گھر کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ سر کو بہت پسند ہے اور وہ خوش بھی تھے مگر خوشی کا یہ لمحہ عارضی ثابت ہوا۔ دنیا کوتاریخ و تہذیب کی روشنی دکھا نے والاخود تاریخ بن گیا۔

وحشت ہے بہت میر کو مل آئیے چل کر
کیا جانیے پھر یاں سے گئے کب ہو ملاقات