Sher Kahani
شہرِ ادب کی فہرست میں رام پور کا نام بھی خاص اہمیت کا حامل ہے،یہ سر زمین بھی اپنے ستاروں سے آسمان تھی۔ یہاں کے درو دیوار بھی ثفاقت اور تہذیب کے آئینے تھے، نواب فیض اللہ خاں کے زمانے میں یہ دبستان رامپور کی پہلی ادبی محفل ہوئی اس شمع کے گرد جو پروانے جمع ہوئے ان میں مصحفی امروہوی، قائم چاندپوری، فدوی لاہوری، پروانہ مرادآبادی، حکیم کبیر سنبھلی بہت ممتاز ہیں،
اسی سر زمین پر حضرت امیر مینائی، استاد داغ دہلوی، حضرت جلیل مانکپوری، ریاض خیرآبادی جیسے مشہور شاعروں کا قیام رہا۔
چنانچہ جلیل مانک پوری نے رامپور قیام کے دوران اپنے گھر پر ایک طرحی نشست کا اہتمام کیا،جس میں یہ طرح دی گئی
عید کا دن ہے مری جان سنورنے کے لیے
اس بزم میں استاد داغؔ دہلوی کے بھائی شاغلؔ صاحب بھی شریک تھے جب محمودؔ رامپوری نے اپنا یہ
شعر پڑھا
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
تو وہاں پر موجود لوگوں پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوگئی جب شاغلؔ صاحب سے غزل پڑھنے کی فرمائش کی گئی تو انھوں نے فرمایا اب اس نشست کا یہیں پر اختتام کیا جاتا ہے چونکہ اس شعر کے بعد میں غزل پڑھنے سے قاصرہوں۔
NEWSLETTER
Enter your email address to follow this blog and receive notification of new posts.