یون فوسہ: ایک تعارف
سن 2023ء کا ادب کا نوبیل انعام ناروے کے ادیب یان فاسے (Jon Olav Fosse)نے حاصل کیا۔ اردو دنیا کے قارئین کے لیے یہ نام اجنبی ہے۔ ذیل میں ان کی شخصیت اور کام کا مختصر تعارف پیش ہے۔
:تعارف
یان فاسے 29 ستمبر 1959 ء کو ناروے میں پیدا ہوئے۔ان کا بچپن اور لڑکپن اسٹین برم نامی قصبے میں بیتا۔ جہاں سات برس کی عمر میں مسلسل ہونے والے حادثات نے انھیں موت کے قریب دھکیل دیا۔ یہ تجربات بعدازاں ان کی تحریری زندگی میں کام آئے۔ انھوں نے پہلی تحریر 12 برس کی عمر میں لکھی۔ جب کہ ان کا کہنا ہے کہ بچپن میں انھیں کتابوں سے کچھ زیادہ رغبت نہ تھی بلکہ ٹین ایج تک وہ موسیقی سے شغف رکھتے تھے اور گٹارسیکھنا ان کا خواب تھا۔ اسی دوران انھوں نے گٹار بجاتے ہوئے کچھ گیت لکھے جنھیں وہ اپنی اولین تحریر کہتے ہیں۔
بعدازاں انھوں نے ناروے کی University of Bergen سے تقابلی ادب میں ماسٹرزکیا اور پھر تخلیقی ادب کو اپنا کیریئر منتخب کیا۔
:ادبی کام
یون فاسے کا ادبی کام مختلف اصناف جیسے کہ ناول، ڈراما، مضامین، شاعری اور بچوں کے لیے تخلیق کردہ کہانیوں کی صورت میں پھیلا ہوا ہے۔ ان کا تخلیقی سفر چار دہائیوں پر مبنی ہے۔ پہلا ناول Raudt,Svart (سرخ، سیاہ) 1983 ءمیں شائع ہوا۔جب کہ پہلا ڈراما 1994ء میں پیش ہوا اور اسی سال کتابی صورت میں بھی شائع ہوا۔ اب تک وہ بیس سے زائد ناول اورچالیس کے قریب ڈرامے لکھ چکے ہیں۔
انھیں ناول نگار سے زیادہ ڈراما نگار کے طور پر جانا جاتا ہے اور نوبیل پرائز بھی انھیں ان کی ڈراما نویسی پر ہی دیا گیا ہے۔ انھیں ناروے کا جدید Henrik Ibsen کہا جاتا ہے۔ جنھوں نے نارویجن لینگویج میں جدید تھیٹر کی بنیاد رکھی۔ تھیٹر کے حوالے سے انھیں رئیل ازم کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔ یان فاسے خود بھی ڈراما نویسی کے حوالے سے ہینرک ابسین اور سیموئل بیکٹ سے متاثر ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔
یان فاسے انسانی جذبات اور احساسات کی شاعرانہ ترجمانی کے لیے جانے جاتے ہیں ۔ وہ عام انسانوں کی زندگی کو اپنا موضوع بناتے ہیں اور انھیں ایک شعری حسیت کے ساتھ اپنے ناولوں اور ڈراموں میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کا اہم ترین ڈراما “رات اپنے گیت گاتی ہے” کے عنوان سے 1998ء میں پیش ہوا۔ جو ایک عورت اور مرد کے قصے پر مبنی ہے، جو دوردراز کے ایک قصبے میں ملتے ہیں اور اپنی تنہائیوں سے جھوجتے ہوئے ایک دوسرے کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فوسے کے لکھے ہوئے مکالمات کو ڈرامے کی جان قرار دیا گیا جو آج بھی عوام کے دلوں پر نقش ہیں۔
:ماسٹر پیس
گزشتہ برس شائع ہونے والے ان کے ناولA New Name:Septology VI-VIIکو ان کا اب تک کا اہم ترین شاہکار سمجھا جاتا ہے، جو 2022ء کے بُکر پرائز میں بھی شارٹ لسٹ ہوا۔یہ ان کی سات ناولوں پر مبنی سیریز ہے۔ جس کا پہلا حصہ Melancholia Iکے نام سے 2006ء میں شائع ہوا۔یہ کل ایک ہزار صفحات پہ پھیلا ہوا ہے۔ ناول کامرکزی کردار Asleاس کا راوی ہے۔ناول کی کہانی تنہائی، شناخت اور زمان و مکان کے قصوں پر مبنی ہے۔
اس کے علاوہ ان کی ناول، ڈرامے، مضامین ،شاعری اور تراجم پر مبنی ستر سے زیادہ تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ ان کا کام چالیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔یورپین زبانوں کے علاوہ انھیں فارسی میں بھی ترجمہ کیا گیا ہے اور ان کے ڈرامے تہران میں دکھائے جا چکے ہیں۔
:اعزازات
فاسے کو پہلا ادبی انعام انھیں اپنے ملک میں ہی 1997 ءمیں ملا۔ لیکن عالمی سطح پر ان کی پذیرائی 2003ء میں ہوئی جب انھیں فرانس کے اعلیٰ ادبی انعام سے نوازا گیا۔ 2010ء میں انھیں ناورے کا سب سے بڑا ادبی انعام ابسین انٹرنیشنل ایوارڈ بھی ملا جو کسی بھی فرد کی اعلیٰ سطح کی انفرادی ادبی خدمات پر دیا جاتا ہے۔علاوہ ازیں انھوں نے نارڈک کونسل لٹریچر پرائز بھی حاصل کیا۔ 2011ء میں انھیں اوسلو میں نارویجن ریاست کے رائل پیلس Grotten کے قریب سرکاری رہائش عطا کی گئی۔جو ناورے میں آرٹ، کلچر اور لٹریچر میں نمایاں کام کرنے والوں کو سرکاری سطح پر اعزازی دی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ ڈیلی ٹیلی گراف کی جانب سے جاری کردہ عالمی ادبیات کی ایک سو حیات نابغہ روزگار شخصیات (Top 100 Living Geniuses) میں انھیں 83 نمبر پہ رکھا گیا ہے۔
:نوبیل پرائز
نوبیل پرائز کمیٹی نے ان کی تحریروں اور ڈراموں کو “محکوموں اور بے کسوں کی آواز” قرار دیا ہے۔ جب کہ فوسے اپنی تحریر میں “الوہی مقاصد” کو پیش کرنے کی بات کرتے ہیں۔
اس سے پہلے ناروے کے تین ادیب ادب کا نوبیل انعام حاصل کر چکے ہیں۔ لیکن یہ انعام 95 سال بعد ملک کے حصے میں آیا ہے۔ آخری نارویجن ادیب Sigrid Undset تھے، جنھوں نے تاریخی فکشن لکھنے پر یہ انعام 1928ء میں حاصل کیا۔
نوبیل پرائز کا حق دار قرار پانے پر اپنے جرمن پبلشر کے ذریعے بھجوائے گئے پیغام میں یان فوسے کا کہنا تھا کہ وہ بیک وقت اس پر خوش بھی ہیں اور حیرت زدہ بھی۔ ان کا کہنا تھا،میں گزشتہ دس برس سے اس (نوبیل انعام) کی پسندیدہ فہرست میں شامل رہا ہوں لیکن مجھے کبھی یقین نہیں تھا کہ میں اس کا حق دار قرار پاؤں گا۔ مجھے اس پہ بالکل یقین نہیں آ رہا۔علاوہ ازیں ڈی گارڈین سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، انھیں اس لیے بھی اس کا یقین نہیں تھا کیوں کہ عموماً یہ انعام عمررسیدہ ادیبوں کو دیا جاتا ہے اور اس میں ایک حکمت بھی ہے تاکہ یہ آپ کی مستقبل کے کام پر اثرانداز نہ ہو۔
:نجی زندگی
اپنے لڑکپن اور نوجوانی میں یان فاسے کمیونزم اور انارکزم سے متاثر رہے۔ نوجوانی میں وہ خود کو “ہپی” کہلواتے تھے۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ 2012 ءسے پہلے انھوں نے خود کو ایک ملحد قرار دیاہواتھا، لیکن 2013 ءمیں کثرتِ شراب نوشی کو ترک کرتے ہوئے باقاعدہ کیتھولک چرچ جوائن کر لیا۔
انھوں نے تین شادیاں کیں۔ پہلی شادی سیسل نامی نرس کے ساتھ ہوئی جو 1980ء سے 1992ء تک چلی۔ ان سے انھیں ایک بیٹے کی اولاد ہے۔ اگلے ہی برس انھوں نے ایک ہندوستانی نژاد نارویجن لکھاری اور مترجم گریتھی فاطمہ سید کے ساتھ دوسری شادی کر لی۔ بعدازاں ان میں علیحدگی ہو گئی۔ اس وقت وہ اپنی تیسری بیوی اینا کے ساتھ آسٹریا میں رہتے ہیں۔ جن سے ان کی شادی 2011ء میں ہوئی۔
یون فاسے کے ناورے سمیت آسٹریا میں بھی رہائش رکھتے ہیں۔ انھیں پانچ ملین امریکی ڈالر کا مالک بتایا جاتا ہے۔
:ادبی خیالات
12 برس کی عمر میں تحریری زندگی کا آغاز کرنے والے یون فاسے نے 2014ء میں دی گارڈین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس عمر میں لکھنا دراصل فرار کی ایک کوشش تھی۔ ان کے بقول، “اس طرح میں نے دنیا میں اپنی ایک الگ اسپیس تخلیق کر لی، جہاں میں خود کو محفوظ تصور کرتا تھا۔”
فاسے کو عام آدمی کی زندگی سے دلچسپی ہے۔ وہ اسی کو اپنی ادبی تحریروں کا مرکز بناتے ہیں۔ عشق، آرٹ، تنہائی، شناخت، بیگانگی ان کے من پسند موضوعات ہیں۔
وہ مارکسزم اور انارکزم سے ہوتے ہوئے کیتھولک عقیدے تک آئے البتہ وہ خود کو مذہب کے صوفیانہ رنگ کے زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں۔ 2022ء میں انھوں نے لاس اینجلس ریویو آف بکس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، “میں جب کچھ بہتر لکھنے لگتا ہوں تو ایک دوسری خاموشی کی زبان کو محسوس کرتا ہوں۔ خاموشی کی یہ زبان سب کچھ کہہ دیتی ہے۔ یہ کہانی کے متعلق نہیں ہوتا، لیکن کہانی کے پیچھے آپ اسے سن سکتے ہیں، ایک خاموشی جو مسلسل سرگوشی کرتی رہتی ہے۔”
NEWSLETTER
Enter your email address to follow this blog and receive notification of new posts.