Manto Blog cover

کون ہے یہ گستاخ؟

جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے
‘دنیا! تیرا حسن یہی بدصورتی ہے’
دنیا اُس کو گھورتی ہے

اوپر کی چند سطریں مجید امجد کی لکھی نظم ‘ منٹو ‘ سے لی گئی ہیں۔ جو کہ انہوں نے منٹو کی وفات پر لکھی تھی۔ مگر بات یہاں یہ ہے کہ کون ہے منٹو ؟ کیا ہے یہ منٹو ؟ آخر کس بلا کا نام ہے منٹو ؟ جس کا صرف نام سن کر شرفا اور مُہذب لوگوں کے منہ سے گالی جیسا کچھ نکلنے لگتا ہے. جس کی کہانیوں کو معاشرے کا ایک حصہ فحاش اور دوسرا ‘پورن اسٹوریز’ کہتا ہے۔ مگر کچھ لوگ تب بھی تھے، اور آج بھی ہیں، چاہے وہ ادبی حلقے کے ہوں یا معاشرے کے، جو اسے ‘سماج کا آئینہ’ اور ‘بے آوازوں کی آواز’ کہتے ہیں اور کھل کر اُس کی حمایت کرتے ہیں۔ مگر شرفا، معاشرے اور ادب کی نگاہوں میں وہ ہمیشہ ایک گستاخ ہی رہا۔ آج ہم جاننے کی کوشش کریں گے کی کون ہے یہ گستاخ ؟

لدھیانہ، پنجاب (برٹش انڈیا) کے ایک چھوٹے سے گاؤں سمرالہ میں، 11 مئی 1912 میں کشمیری مسلم وکیل کے گھر پیدا ہوا ایک لڑکا، گھر والوں نے اس کا نام سعادت حسن رکھ دیا۔ مگر گھروالے اُسے ‘منٹو’ کہ کر بلاتے تھے، وہ اس بات سے انجان تھے کہ ایک دن پوری دنیا اس لڑکے کو اسی نام سے بلائے گی ۔ منٹو ایک کشمیری نام ہے، اسے منٹو، مِنٹو اور مَنٹو بھی کہتے ہیں۔ چونکہ گھر کی مالی حالات ٹھیک تھی تو شروعاتی دنوں میں زیادہ تکلیفیں پیش نہیں آئیں اور تعلیم حاصل کرنے میں بھی کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ ان کا داخلہ لدھیانہ کے ہی ایک اسکول میں ہو گیا۔ مگر بات یہاں آتی ہے کہ داخلہ جس نے لیا ہے اُسے پڑھنے کا من ہے کہ نہیں؟ منٹو طبیعت سے آلسی تھے اور پڑھائی میں کمزور اسی وجہ سے وہ دسویں جماعت میں فیل بھی ہوئے۔

سن 1933 میں زندگی نے رخ موڑا اور منٹو کی ملاقات عبدالباری علیگ نام کے ایک شخص سے ہوئی، جو پیشے سے اسکالر اور ادیب تھے۔ اُنہوں نے ہی منٹو کو منٹو سے ملایا، اُن کی ادب میں دلچسپی پیدا کی اور انہیں روسی و فرینچ ادب پڑھنے کی نصیحت کی۔ منٹو نے اُن کی بات کو سنجیدگی سے لیا اور روسی و فرینچ ادب پڑھنا شروع کر دیا۔ پڑھنے پر آئیں تو دونوں زبانوں کے ادب کو اتنا پڑھا کی اپنی ادبی زندگی کا آغاز بھی ان زبان کے کتابوں کا اردو میں تراجم کرنے سے کیا۔ آسکر وائلڈ، انٹونی چیخو، لیو ٹالسٹائی اور وکٹر ہیوگو اُن کے پسندیدہ ادیب تھے۔ منٹو نے پہلی بار وکٹر ہیوگو کی ہی کتاب ‘دا لاسٹ ڈے اوف آ کنڈمند مین’ کا اردو میں ترجمہ کیا۔ جو بعد میں کسی اردو بُک سٹال نے اُسے ‘سرگزشتِ اسیر’ نام سے شائع کی۔ اسی درمیان وہ  ‘مساوات’ نامی ایک ڈیلی اخبار کے ایڈیٹوریل اسٹاف میں بھی رہے۔ منٹو نے 1934 میں اپنی زندگی کی پہلی کہانی ‘ تماشا ‘ لکھی۔ جو جلیانوالہ باغ کو ایک 7 سال کے بچے کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اس وقت منٹو بھی اس بات سے نا واقف رہے ہوں گے کہ اُن کے یہی افسانے اُنہیں پوری دنیا میں مشہور و ممتاز اور بدنام دونوں کریں گے۔ 

فروری 1934 میں منٹو نے علیگڑھ کا رخ کیا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ اس وقت علیگڑھ یونیورسٹی، لیفٹست نظریات کے طلباء کا مرکز تھی۔ اسی یونیورسٹی میں اُن کی ملاقات علی سردار جعفری سے ہوئی جو کہ شاعر اور ادیب کے ساتھ کمیونسٹ بھی تھے۔ اُن کی صحبت کا منٹو پر بہت اثر ہوا۔ اور اسی درمیان ہی منٹو انجمن ترقی پسند مصنفین ہند( آلِ انڈیا پروگریسیو رائٹرز ایسوسیشن) سے بھی جڑے۔ اس ماحول کا منٹو پہ بہت گہرا اثر ہوا، اور وہ پہلے سے بھی زیادہ انقلابی ہو گئے ۔ حالانکہ وہ بچپن سے ہی انقلابی تھے اور بھگت سنگھ کو اپنا آدرش مانتے تھے۔ علیگڑھ یونیورسٹی میں ہی اُنہوں نے اپنی دوسری کہانی ‘ انقلاب پسند ‘ لکھی۔ جو کی 1935 میں علیگڑھ میگزین میں شائع ہوئی۔ شروعاتی دنوں میں منٹو کی کہانیاں کمیونسٹ نظریے سے متاثر نظر آتی ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی کہانیوں کا رخ بھی بدلتا ہے۔

سال 1934 میں ہی منٹو پہلی بار بمبئی (ممبئی) آئے، اور وہاں اُنہوں نے اخباروں اور مگزینوں کے لئے لکھنا شروع کردیا۔ ساتھ ساتھ وہ ہندی فلم انڈسٹری کے لیے بھی لکھ رہے تھے۔ اسی بیچ اُن کی کئی نامچین لوگوں سے دوستی ہوئی جیسے  نورِ جہاں (اداکارہ / گلوکار)، نوشاد (موسیقی کار)، اسمت چغتائی (افسانہ نگار)، شیام (اداکار) وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت میں وہ ممبئی کے ریڈ لائٹ ایریا ، فورس لین میں ہی گھر لے کر رہ رہے تھے۔ وہاں کے ماحول اور حالات کا منٹو کی کہانیوں پر بہت گہرا اثر نظر آتا ہے۔

سن 1936 میں پہلی بار اُن کے افسانوں کا مجموعہ شائع ہوا جس کا نام ‘آتش پارے’ تھا۔ اس مجموعہ میں اُن کے کُل 8 افسانے تھے۔

سال 1941 میں وہ ممبئی چھوڑ کر دہلی آ گئے۔ اور آل انڈیا ریڈیو میں کام کرنے لگے۔ دہلی میں وہ محض 17 مہینے ہی رُکے ۔ مگر یہ وقت اُن کی ادبی زندگی کا سنہرا دور مانا جاتا ہے۔ اس درمیان اُنہوں نے بہت سے ریڈیو ڈرامے لکھے۔ یہاں اُن کے ریڈیو ڈراموں کے 4 مجموعے شائع ہوئے ، آو ،منٹو کے ڈرامے، جنازے اور تین عورتیں۔ اسی بیچ ہی کہانیوں کا دوسرا مجموعہ ‘دھواں’ اور عصری موضوعات پر لکھے گئے متنازعہ مضامین بھی ‘منٹو کے مضامین’ نام سے شائع ہوا۔

جولائی 1942 میں منٹو کا ریڈیو اسٹیشن ڈائریکٹر سے جھگڑا ہو گیا جس کی وجہ سے وہ دلّی کو الوداع کہ کر پھر ممبئی پہونچ گئے۔ ممبئی پہنچے تو پھر سے فلم انڈسٹری میں کام کرنا شروع کر دیا۔ اور اس درمیان انہوں نے اپنی سب سے مشہور اور بہترین فلمیں لکھیں جیسے : آٹھ دِن، شکاری، چل چل رے نوجوان اور مرزا غالب جو آخرکار سن 1954 میں جا کر ریلیز ہوئی۔ انہی سالوں میں انہوں نے اپنے سب سے اختلافی اور مشہور افسانے بھی لکھے جیسے : کالی شلوار (1941)، دھواں (1941)، اور بُو (1945)۔ ممبئی کے اس دور کی خاص بات یہ رہی کی اسی بیچ اُن کے افسانوں کا ایک اور مجموعہ ‘چُگڑ’ بھی شائع ہوا جس میں ‘بابو گوپی ناتھ’ بھی تھا۔ منٹو بنٹوارا ہونے کے سخت خلاف تھے، انہوں نے ہمیشہ ہی ممبئی کو اپنا گھر مانا تھا۔ مگر 1947 کے ہندو مسلم دنگوں اور اپنے عزیز دوست شیام کی بے رخی سے اُن کا دل ایسا ٹوٹا کہ انہوں نے جنوری 1948 میں پاکستان جانے کا ارادہ کیا۔ شیام نے منٹو کو روکنے کی بہت کوششیں کی، لیکن وہ نہیں مانے۔ شیام نے یہاں تک کہا کہ تم کون سے مسلمان ہو؟ تم شراب پیتے ہو، نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے۔ تو تمہیں کیوں ڈر لگ رہا ہے یہاں؟ تمہیں کیوں جانا ہے پاکستان ؟۔ جواب میں منٹو نے اتنا ہی کہا کہ اتنا تو مسلمان ہوں کی دنگوں میں مارا جا سکوں۔ منٹو کی بیوی- بچّے پہلے سے ہی لاہور میں رشتےداروں کے گھر ٹھہرے تھے۔ منٹو نے بمبئی سے جہاز کا سفر کیا اور لاہور پہنچ گئے۔

سن 1948میں لاہور پہنچنے کے بعد منٹو کا ملنا جلنا وہاں کے دانشوروں، شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ لگا رہا۔ لاہور میں اُن کا اڈا مشہور ‘ پاک ٹی ہاؤس ‘ تھا۔ 47، 48 میں یہ ادبی اور سیاسی محفلوں کا مرکز تھا۔ یہاں منٹو کا ملنا فیض احمد فیض، ناصر کاظمی، احمد ندیم قاسمی جیسے نامور لوگوں کے ساتھ لگا رہا۔ مگر لاہور منٹو کو بھایا نہیں کیوں کہ وہ ممبئی نہیں تھا۔ یہاں اُن کے دوست نہیں تھے۔ اور تو اور ترقی پسند تحریک نے بھی انہیں نکال دیا تھا۔ اس خالی پن اور تنہائی کو بھرنے کے لیے منٹو نے شراب کا سہارا لیا جو بعد میں جا کر اُن کی موت کی وجہ بنی۔ لاہور میں منٹو اپنی بیوی صفیہ، تین بیٹیاں (نصرت، نکہت اور نزہت)، ایک بھانجے اور اپنی ساس کے ساتھ رہ رہے تھے۔ منٹو نے اسی بیچ بہت سے اخباروں اور میگزینوں کے لیے لکھا۔ اس بیچ انہوں نے اپنے سب سے مقبول ترین افسانے لکھے جیسے : کھول دو، سیاہ حاشیے، گنجے فرشتے، خالی بوتلیں، ٹھنڈا گوشت اور ٹوبہ ٹیک سنگھ وغیرہ۔ بہت زیادہ شراب پینے کی وجہ سے روز گھر پر لڑائی کرنا اُن کی عادت بن چکی تھی، اُن کی شراب کی لت چھڑانے اور اُن کی زندگی بچانے کے لیے اُن کے گھر والوں نے اُن کا داخلہ پاگل خانے میں کرا دیا۔ کافی لمبے وقت تک وہ پاگل خانے میں ہی رہے۔ حالانکہ وہ دوبارہ گھر لوٹے مگر اُن کی شراب کی لت چھوٹی نہیں اور وہ چُھپ چُھپ کر شراب پیتے رہے۔ 1954 میں اپنا سب سے مشہور و معروف اور قابلِ تعریف افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ لکھا۔ 18 جنوری 1955 کو محض 42 سال کی عمر میں گردے کی بیماری سے اردو کے اس نامور افسانہ نگار کی موت ہو گئی۔ مگر وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے : 22 مجموعہ افسانوں کا، 1 ناول، 5 ریڈیو ڈراموں کے مجموعے اور 2 سکیچز ۔

منٹو اور مقدمے

منٹو پر اُن کی زندگی میں کُل 6 بار مقدمے ہوئے۔ اُن پر فحاش یعنی اشلیل افسانے لکھنے کا الزام تھا۔ 3 بار برٹش انڈیا میں اور 3 بار پاکستان میں۔ برٹش انڈیا میں جن افسانوں پر مقدمے ہوئے وہ تھے : دھواں ، بُو اور کالی شلوار۔ پاکستان آنے کے بعد جن افسانوں پر مقدمے ہوئے وہ تھے : کھول دو، ٹھنڈا گوشت اور، اوپر نیچے اور درمیان۔ مگر ان 6 مقدموں میں وہ کبھی بھی گنہگار ثابت نہیں ہوئے ۔ محض 1 بار انہیں کچھ روپئے جرمانہ دینا پڑا تھا۔ دراصل منٹو کے افسانے کبھی فحاش تھے ہی نہیں۔ منٹو کے لفظوں میں کہا جائے تو اُن کے افسانے سماج کا آئینہ ہیں۔

منٹو دوسروں سے جُدا اور اتنے مشہور کیوں ؟

منٹو ہمیشہ سے ہی باقی ادیبوں سے الگ تھے۔ اس زمانے میں جہاں ادیب تہذیب کے دائرے میں رہ کر کہانیاں لکھتے تھے اور اُن کے پاس بڑے ہی گنے چنے عنوان تھے جنہیں وہ بڑے ہی مہذب طریقے سے کہانیوں میں ڈھالتے تھے۔ وہاں یہ گستاخ کوئی تہذیب نہیں جانتا تھا۔ بقول منٹو : جو چیز جیسی ہے اسے ویسے ہی کیوں نہ لکھا جائے؟ اوّل تو جو لوگ تہذیب اور ادب کا اوڑھنا اوڑھے تھے انہیں یہ پسند نہیں تھا کہ منٹو طوائفوں کے بارے میں لکھتا ہے، وہ اُن کی زندگی لکھتا ہے، اُن کے دکھ درد کو بیان کرتا ہے۔ انہیں یہ ساری باتیں فحاش لگتی تھیں اور منٹو کو معاشرے کی حقیقت۔ وہ بے خوف اور بے باک افسانے لکھتے ہی رہے۔ اُن کے چاہنے والوں کے ساتھ ساتھ اُن سے نفرت کرنے والوں کی بھی تعداد بڑھتی چلی گئی۔

مگر 1947 کے بنٹوارے نے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ہندو مسلم دنگے، مار پیٹ، لوٹپات، قتل و غارت اور آبرو ریزی جیسے گھنونے حادثات انہوں نے اپنے سامنے دیکھے۔ بنٹوارے نے اُن پر ایسا داغ چھوڑا کی 47 کے بعد اُن کے ہر افسانے میں بنٹوارے کا دکھ درد صاف نظر آتا ہے۔ اگر ہم تاریخ کو پلٹ کر دیکھیں تو شاید ہی کوئی ادیب یا شاعر ہوگا جس نے بنٹوارے کے بارے میں اتنا لکھا اور اتنی باریکی سے لوگوں کی روداد لکھی۔ ساتھ ساتھ وہ پاکستان میں رہ کر ہی وہاں کی حکومت کے خلاف لکھتے رہے، پاکستان کس طرف جا رہا ہے اور اس کا مستقبل کیا ہے وہ سب انہوں نے اپنے خط ‘ لیٹر ٹو انکل سیم’ میں لکھا ہے۔ منٹو کا اس بیباکی سے سماج کی برائیوں کو لکھنا، لوگوں کی گندی ذہنیت کو اجاگر کرنا اور سنجیدہ موضوعات پر بے خوف لکھنا ہی انہیں دیگر ادیبوں سے جدا کرتا ہے، اور جہاں میں مقبول اور بدنام بھی۔

اُمید کرتا ہوں کی آپ کو اس گستاخ کے بارے میں بھرپورعلم حاصل ہوا ہوگا۔

!منٹویٔت زندہ آباد