آزادی کی کہانی کتابوں کی زبانی
دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ہو جو اتنا وسیع ہو اور جہاں اتنی قسم کی نسلیں آباد ہوں جو مختلف مذاہب رکھتی ہوں، مختلف زبانیں بولتی ہوں، مختلف رسم و رواج کی پابند ہوں، اور پھر صرف ایک سو سال کے عرصے میں ان میں قومی وحدت کا ایسا شعور پیدا ہوگیا ہو جو آزادی کی بنیاد بنا۔۔۔
کسی حکیم کا مشہورقول ہے کہ آزادی ضرورتوں کو محسوس کرنے کا دوسرا نام ہے۔ اگر ضرورت محسوس ہی نہ ہو تو آزادی بھی حاصل نہیں ہوگی۔ یہاں ضرورت سے مراد روز مرہ کی ضرورتوں سے تھوڑا اوپر اٹھ کر فطری ضرورتیں و خواہشات ہیں۔ جس میں انسان اپنی مرضی سے اپنی پسند کے کام کرسکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ انگریزی حکومت کے بے جا ظلم، غیر ضروری پابندیوں نے ہندوستانیوں کو آزادی کی اہمیت کا احساس دلایا۔۔۔
آزادی کے اس احساس کو عوام میں بیدار کرنے، اور سب کو ایک فلیٹ فارم پر جمع کرنے میں اردو زبان و ادب نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ شارب رودلوی اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ “ہندوستان کی جنگ آزادی دو اسلحہ سے لڑی گئی۔ ایک اہنسا، دوسرا اردو زبان۔” اگر ہم اس قول کی صداقت کو دیکھنا چاہیں تو ہمیں اپنے ارد گرد کتابوں کے ذخیروں کی طرف رخ کرنا پڑیگا۔۔۔
ریختہ نے اپنے قارئین کے لئے ایسی ہی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ تیار کر رکھا ہے جس میں ہماری آزادی اور تحریک آزادی کے متعلق بہت کچھ اور اہم مواد موجود ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس جشن آزادی کو خاص بناتے ہوئے کچھ اچھی کتابیں پڑھیں، جن میں ہمیں ہندوستان کی آزادی کی داستان سمیت ملک کی تاریخ کے اہم باب جاننے کا موقع ملے۔۔۔
آزادی کی نظمیں
زیر نظر کتاب “آزادی کی نظمیں” سبط حسن کی مرتب کردہ کتاب ہے، جس میں تحریک آزادی اور جذبہ انقلاب سے معمور حب الوطنی کا درس دیتی نظموں کا انتخاب ہے۔ جس میں مرزا غالب سے لے کر علی سردار جعفری تک بہت سارے عظیم فنکاروں کا کلام شامل ہے۔ نیز مولانا آزاد، حالی، اسمعیل، شبلی، اقبال، سرور، چکبست، حسرت، جوش، علی جواد زیدی، جگر،افسر میرٹھی وغیرہ کی حب الوطنی کی جذبے سے سرشارنظمیں شامل ہیں۔ یہ مجموعہ محض نظموں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ احساس غلامی کے ارتقا کی تاریخ بھی ہے۔ اگر ان نظموں کو غور سے پڑھا جائے تو نہ صرف آزادی کے تصور کا تدریجی ارتقا واضح ہوجائے گا بلکہ یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ آج ہم کس منزل پر کھڑے ہیں۔ ہمارے رجحانات کیا ہیں۔ اور آئندہ ہامری منزل کیا ہوگی۔
آزادی کی کہانی انگریزوں اور اخباروں کی زبانی
زیر نظر کتاب “آزادی کی کہانی” غلام حیدر کی کتاب ہے۔ اس کتاب میں آزادی کی کہانی سناتے وقت دو چیزوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ ایک خود ملک کے دشمنوں یعنی انگریزوں کا یا ان کے کہے ہوئے الفاظ کا، اور دوسرے ہمارے ملک کے اخباروں میں چھپی ہوئی خبروں کا۔ یہ کہانی بڑے دلچسپ انداز میں کسی فلم کی طرح سنائی گئی ہے۔ زبان کافی آسان اور بیانیہ بہت رواں ہے۔ فلموں کی طرح مختلف مناظر سامنے آتے جاتے ہیں اور کہانی آگے بڑھتی ہے۔ یہ کہانی تقسیم پر جا کر جب ختم ہوتی ہے تو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
غالب اور ہماری تحریک آزادی
غالب کا نام اگرچہ 1857 کے حریت پسندوں میں نہیں آتا مگر غالب وہ شخصیت ہیں جو ان سب واقعات کو اپنی کھلی آنکھ سے دیکھ رہے تھے اور انہوں نے ان واقعات کو ‘دستنبو’ میں قلم بند بھی کیا ہے۔ اگرچہ غالب کا اس جنگ میں کردار مشکوک سا معلوم پڑتا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ غالب کی عمر جنگ میں شریک ہونے کی نہیں تھی مگر کیا ہی خوب ہوتا کہ ان جذبات کو وہ اپنی تحریروں میں بیان کر دیتے مگر انہوں نے جو لکھا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اس غدر کے خلاف تھے اور انہوں نے اپنی تحریروں میں حریت پسندوں کو برا بھلا کہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اسی غدر کے ایام میں ان کا بھائی یوسف جو دماغ سے کمزور تھا، کو گولی مار دی گئی اور غالب کا رویہ یہ رہا کہ اس کی نعش تک لینے نہیں گئے۔ وہ اس پورے زمانے میں اپنی برائت ظاہر کرنے کی فکر میں رہے کیونکہ ان کا تعلق بہادر شاہ ظفر سے تھا اور وہ بادشاہ کے بہت ہی قریبی تھے۔ زیر نظر کتاب ” غالب اور ہماری تحریک آزادی” شمیم طارق کی کتاب ہے، جس میں غالب اور تحریک آزادی میں ان کا کردار کیا رہا پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ نیز 1857 سے متعلق ان کے خطوط کو تاریخی ترتیب سے پیش کیا گیا ہے تاکہ موضوع کی بہتر تفہیم ہوسکے۔
ہماری آزادی
“انڈیا ونس فریڈم ” مولانا آزاد کی کتاب ہے، جو پہلے “الکلام ” میں قسط وار شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب ہندوستان کی آزادی اور جد وجہد آزادی کی تفصیلی تاریخ پر مبنی ہے۔ اس کتاب کی خصوصی اہمیت یہ ہے کہ مولانا آزاد نے اس میں اپنے مزاج کے مطابق اپنے پرائے کی تمیز کیے بغیر 1935ء سے 1948 تک کے حالات و واقعات کا تجزیہ اپنی بصیرت کی روشنی میں کیا ہے۔ زیر نظر کتاب “ہماری آزادی” اسی ‘انڈیا ونس فریڈم’ کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ پروفیسر شمیم حنفی نے کیا ہے۔ یہ کتاب “تحریک آزادی” اور آزادی کی حیثیت” کے نام سے بھی شائع ہوئی ہے۔ ہوا یوں کہ ہمایوں کبیر نے مولانا ابو الکلام آزاد کے بیانات کو انگریزی میں لکھا تھا، پروفیسر ہمایوں کبیر جتنا لکھتے جاتے اتنا مولانا آزاد کے پاس بھیجتے جاتے، مولانا آزاد مسودے کی تصحیح کرتے، اور پھر دونوں مسودوں کو ملاتے، اس طرح ان مراحل سے گزرنے کے بعد جب پوری کتاب کا مسودہ تیار ہو گیا اور مولانا کی نظر ثانی کے بعد مکمل ہو گیا تو انھوں نے اس میں سے تیس صفحات جو ذاتی نوعیت کے تھے، علاحدہ کردئے۔ شروع کے ایڈیشنس ان ذاتی نوعیت کے تیس صفحات کو علاحدہ کرکے شائع ہوئے تھے، لیکن اس نسخے میں تیس برس کے بعد مکمل متن پیش کیا گیا ہے۔ لہذا یہ کتاب ایک ایسی تاریخ بن گئی ہے جو آزادی کی کہانی کے ساتھ مولانا آزاد کی آپ بیتی بھی ہے۔
آدھی رات کی آزادی
کتاب کا اصل متن انگریزی میں ہے جس کا اردو ترجمہ ممتاز ماہر معاشیات، صحافی اور شاعر سعید سہروردی نے کیا ہے۔ اس کتاب میں ۱۹۴۷ میں تقسیم کے احوال و کوائف کی منظر کشی کی گئی ہے۔ کتاب میں کل ۲۱ موضوعات ہیں اور ان میں تقسیم اور اس وقت کے ماحول کے بارے میں سب کچھ اور کچھ نادر باتیں موجود ہیں۔ ایک موقع پر جب تقسیم کے فیصلے کی آخری رات تھی، اس رات کا منظر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ محمد علی جناح سے آخری ملاقات کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے سوچا کہ اگر اسی طرح سارا وقت باتوں میں گزر گیا تو ملک میں خانہ جنگی کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ اس وقت اس نے اپنے چیف آف اسٹاف کی طرف دیکھا اور اداس لہجے میں کہا کہ جس بٹوارے کو ٹالنا ناممکن ہے کیوں نہ اس کا انتظام اور اس کا طریقہ کار مرتب کرنا شروع کر دیا جائے۔ ۱۹۴۷ میں اگر مہاتما گاندھی، ماونٹ بیٹن یا جواہر لال نہرو کو ایک غیر معمولی راز معلوم ہوتا تو شاید ملک کے بٹوار ے کو یقیناً ٹالا جا سکتا تھا۔ وہ راز ایک لفافے میں بمبئی کے ایک ڈاکٹر جے اے ایل پٹیل کے دواخانے کی مضبوط الماری میں بند تھا۔ اس لفافے میں محمد علی جناح کے سینے کا ایکسرے تھا۔ غرضیکہ اس کتاب میں کئی اہم تاریخی راز منکشف کیے گئے ہیں۔
ہندوستان ہمارا
اردو زبان کی مختلف اصناف سخن میں شاعری ایک اہم وسیلہ قرار پائی جس نے مشترکہ تہذیب کی علامت کو اجاگر کرنے میں اہم اور قابل اعتنا کردار نبھایا ہے، اردو شاعری نے ہمیشہ وطن کے لیے اپنی محبت اور اپنائیت کا ثبوت پیش کیا۔ ہندوستان میں وطنیت اور قومیت کا جب سیاسی تصور پیدا ہوا تو شعرائے کرام کے لب و لہجے میں خود بہ خود تبدیلی پیدا ہوئی۔ اکبر الہ آبادی، چکبست، ظفر علی خان، علامہ اقبال، تلوک چند محروم، جوش ملیح آبادی، احسان دانش، ساغر نظامی اور دوسرے شعرائے کرام کے نام بھی اس سلسلے میں لیے جا سکتے ہیں۔ زیر نظر کتاب “ہندوستان ہمارا ” جانثار اختر کی ترتیب کردہ کتاب ہے۔ یہ کتاب دو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد میں ہندوستان کے قدرتی مناظر، موسم، یہاں کے صبح و شام، ہمارے تہوار، شہری علاقے، ہماری تعمیرات، فنون لطیفہ اور مذہبی رہنماوں کے تعلق سے نظمیں ہیں جبکہ دوسری جلد میں اردو کی وہ نظمیں شامل ہیں جو شروع سے لیکر کتاب کی ترتیب تک سیاسی تحریکات سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس کتاب میں موجود سیاسی تحریکات سے متعلق اردو شاعری کو پڑھ کر قاری کو اس بات پر فخر ہوتا ہے کہ اردو شاعری صحیح معنوں میں ہندوستانی سیاسی تحریکات کا ایک معتبر تاریخی ذخیرہ ہے، ساتھ ہی ساتھ وہ شاعری فنی اعتبار سے بھی کافی وقیع ہے۔
تحریک آزادی کی ضبط شدہ کتابیں
ریختہ کے اس ای بکس کلیکشن میں ہم آپ کو کچھ ایسی کتابوں سے متعارف کرانا چاہتے ہیں، جو تحریک آزادی میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ شارب رودلوی اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ “ہندوستان کی جنگ آزادی دو اسلحہ سے لڑی گئی۔ ایک اہنسا، دوسرا اردو زبان۔ اگر ہم اس قول کی صداقت کو دیکھنا چاہیں تو ہمیں ان کتابوں میں دیکھنے کو مل جائیگا۔ یہ وہ کتابیں ہیں جن کو انگریزوں کے ذریعہ ضبط کرلیا جاتا تھا۔ کتابیں کیا بس مختصر رسائل اور کتابچے ہیں۔ اکثر کتابوں میں صرف آٹھ آٹھ یا بہت زیادہ سولہ صفحات ہوتے ہیں، اور ان کتابوں کے رائٹرس کا بھی پتا نہیں، بلکہ جو مصنفین کے نام کتابوں پر درج ہیں، وہ اکثر فرضی ہیں، اور یہ اس لئے ہوتا تھا تاکہ عوام تک انقلاب اور بغاوت کا میسج پہنچ جائے اور سرکار کے سامنے ان کا نام بھی نہ آئے، کیونکہ ایسے لوگوں کو سزا دی جاتی تھی۔۔۔ یہ کتابیں زیادہ تر منظوم ہیں۔ ان کی زبان بھی الگ الگ علاقائی ہے، لیکن رسم الخط سب کا اردو ہی ہے۔ نیچے ان کتابوں کے کلیکشن کا لنک دیا جاتا ہے، آپ ان کتابوں کو پڑھئے، ہوسکتا ہے، ان کی زبان قردے مشکل ہو، کچھ فنی خامیوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن تمام کتابوں میں آپ کو جذبہ آزادی نظر آئے گا، نیز یہ بھی پتا چلے گا کہ یہ سب اس وقت کتنا مشکل تھا۔۔۔ انگریز ایسے کتابچے چلا دیتے تھے، اور ان کے لکھنے والوں کو سزا بھی دیتے تھے، لیکن آزادی کے متوالے باز نہیں آتے تھے، پھر لکھ دیتے تھے، اور چپکے چپکے عوام میں راتو رات تقسیم بھی ہوجاتی تھی، آزادی کے اس اہم موقعہ پر ہمیں یہ کتابیں ضرور پڑھنی چاہئے۔
ریختہ ای بکس دنیا کی سب سے بڑی اردو ڈیجیٹل لائبریری ہے، جس میں اب تک تقریباً دیڑھ لاکھ کتابیں دستیاب ہو چکی ہیں۔ اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ‘ریختہ ای بکس’ میں ہر رنگ اور حظ کی کتابیں موجود ہیں۔ ریختہ نے اپنے قارئین کی سہولت کے لئے مخصوص کلکشن اور موضوعات بھی ترتیب دئے ہیں، جہاں مختلف اصناف کی سب سے بہتر کتابیں پڑھنے کے لئے ہر وقت دستیاب ہیں۔ آپ ‘ریختہ ای بکس’ لائبریری پر تشریف لائیں، کتابوں کو پڑھیں، اپنی پسند کا اظہار کریں اور اپنے مفید مشوروں سے نوازیں۔
NEWSLETTER
Enter your email address to follow this blog and receive notification of new posts.