Articles By Rizwan Uddin Farooqui

رضوان الدین فاروقی ۲۴ اکتوبر ۱۹۹۲ کو مدھیہ پریش کے تاریخی شہر سرونج میں پیدا ہوئے۔ وہ سرونج کے اس خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جو علم و ادب اور فہم و فراست میں کئی نسلوں سے ممتاز و مکرم رہا ہے۔ان کے دادا نجیب الدین فاروقی مرحوم مشہور وکیل ہی نہیں صاحب بصیرت بھی تھے۔ان ہی کے بیٹے محب الدین فاروقی،صاحب علم اور صاحب ادراک تھے۔ علم سے رغبت نے انھیں کتابوں سے محبت کرنا سکھایا تھا۔ انھوں نے بقول شان فخری کتابوں پر اتنا ضائع کیا کہ اگر وہ پس انداز کرتے تو شہر کے بڑے صاحب جائداد ہوتے۔علم سے یہ رغبت اور یہ دیوانگی رضوان فاروقی کو بھی وراثت میں ملی ورنہ میکینکل برانچ سے بی ای کرنے کے بعد اردو ادب کی طرف راغب ہونا یقیناً بزرگوں کی میراث کی حفاظت ہے۔ انجینئرنگ مکمل کرنے کے بعد آپ معروف آٹوموبائل کمپنی مہندرا سے وابستہ ہوگئے اور چھ سال تک وہیں اپنی خدمات انجام دیں مگر اردو کی محبت انھیں اردو کے میدان میں لے آئی۔ آپ فی الوقت مدھیہ پردیش اردو اکادمی میں عارضی طور پر سوشل میڈیا مینیجر اور وہاں سے نکلنے والے رسالے سہ ماہی تمثیل کی ادارت سے وابستہ ہیں اور اثبات پبلیکیشنز میں بھی بطور سوشل میڈیا ایگزیکیٹواپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ کے مضامین ملک کے معیاری ادبی رسائل و جرائد میں پابندی سے شائع ہوتے ہیں۔ آپ کو مدھیہ پردیش اردو اکادمی کی جانب سے بطور صوبائی ہیڈ کوارٹر اپنی خدمات انجام دینے کے لیے نوازا جا چکا ہے اور بزم حامد حسن شاد کی جانب سے نوجوانوں میں اردو کے فروغ کے لیے حامد حسن شاد ایوارڈ ۲۰۱۸ سے نوازا جا چکا ہے۔

Rekhta Rauzan

रेख़्ता रौज़न देवनागरी लिपि में प्रकाशित होना क्यूँ ज़रूरी है?

उर्दू और हिन्दी को लेकर एक सवाल बार बार किया जाता है कि दोनों में क्या रिश्ता है और यहां तक कहा जाता है कि उर्दू मुसलमानों की ज़बान है तो सबसे पहले मैं स्पष्ट कर दूँ कि उर्दू किसी एक फ़िरक़े की ज़बान नहीं है। हमें मालूम होना चाहिए कि माहिर ए ग़ालिबयात मालिक राम रहे हैं, माहिर इक़बालियात पंडित जगन्नाथ आज़ाद रहे हैं, डॉ. गोपीचंद नारंग को पूरी अदबी दुनिया उर्दू के हवाले से जानती है। हम सभी को इल्म है कि यह दोनों ज़बानें एक दूसरे की पूरक कहलाती हैं, इस बारे में हमें यह भी मालूम होना चाहिए कि उर्दू हिन्द आर्याई ज़बान का ही नया रूप है।

Ghalib and April Fool, April Fool Shayari

“جب غالب کی غزل کے نام پر لوگوں کو اپریل فول بنایا گیا”

ریاست بھوپال اپنی تشکیل کے اولین دور سے ہی اہل علم و ادب کی قدردان رہی ہے خصوصاً نواب صدیق حسن خاں کا دوربھوپال کی علمی وجاہت کا انتہائی سنہرا دور تھا۔ قال اللہ اور قال رسول کے اسباق کے درمیان میر و مصحفی اور غالب و مومن کی شعری عشوہ طرازیوں کے رنگ بھی فضا میں بکھرے ہوئے تھے خصوصاً غالب کے قدردانوں کا ایک وسیع حلقہ یہاں موجود تھا۔یہی وجہ ہے یہاں غالب کی ابتدائی دور کا کلام اس وقت آگیا تھا جب وہ جوانی کی سرحدوں سے گزر رہے تھے ۔

Twitter Feeds

Facebook Feeds