Blog on Gandhi

گاندھی جی ریختہ میں۔۔۔۔

گاندھی جی ہندوستان کے سب سےعظیم انسان اور ہماری سیکولر قدروں کے سب سے بڑے امین سمجھے جاتے ہیں۔  ہندوستان کی سیاسی زندگی میں جو نمایا اور ممتاز پوزیشن ان کو حاصل ہے کسی دوسرے کو نہیں۔ ان کے فلسفہ سیاست کے ساتھ بہت سے لوگوں کو اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اس اختلاف کی بنا پر ان کی بزرگی اور عظمت اور خلوص کا انکار کرنا ممکن نہیں۔ اور یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہندوستان میں ایک منظم بیداری پیدا کرکے انہوں نے ایک بہت بڑا تاریخی فریضہ انجام دیا ہے۔

گاندھی جی نے عدم تشدد کو اپنا ہتھیار بنایا۔ یعنی اہنسا کا تصور دنیا کو انہیں کی دین ہے۔ یہی طریقہ کار ہندوستان کی آزادی کا سبب بنا اور دنیا کے لئے انسانی حقوق اور آزادی کی تحریکوں کے لئے روح رواں ثابت ہوا۔ گاندھی جی کا یہ کہنا کہ اہنسا میرے لئے ایک پالیسی نہیں بلکہ میرا عقیدہ اور میرا مذہب ہے، عظمت انسانی کے خیال کو مزید تقویت دیتا ہے، کیونکہ عدم تشدد سے پیدا ہونے والی طاقت انسان کے ایجاد کردہ تمام ہتھیاروں سے بدرجہا بہتر ہے۔

آج ہم جس دور سے گزررہے ہیں وہ دور نہایت انتشار اور ابتلا کا شکار ہے۔ چاروں طرف ماحول میں تناو اور غیر یقینیت کا خوف ذہنوں پر طاری ہے۔ اس لئے اس ضبط اور صبر کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ جس کا سر چشمہ یہ تصور ہے جسے ہم  گاندھی واد، عدم تشدد یا اہنسا کا نام دیتے ہیں۔

آج گاندھی جی کا فلسفہ انسانیت قدرے دھندلایا ہواہے۔ ان کا نظریہ عدم تشدد، قومی ایکتا اور رنگ و نسل، ذات برادری اور علاقائیت کے امتیازات سے اوپر اٹھ کر سوچنے کی تحریک، کسی قدر ماند پڑتی جارہی ہے۔ اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان تمام تحریری سرچشموں سے استفادہ کریں جو ہماری امیدوں کو تقویت بخشیں، اس لئے ریختہ اپنی ای بک لائبریری سے کچھ ایسی کتابیں پیش کررہا ہے جو گاندھی کے حالات اور تعلیمات کو پیش کرتی ہیں۔

تلاش حق

Mahatma Gandhi Biography

“تلاش حق” گاندھی کی خود نوشت سوانح عمری ہے، جس کو  انھوں نے گجراتی زبان میں لکھا تھا۔ اس خود نوشت کا انگریزی ترجمہ ان کے سکریٹری مہادیو دیسائی نے “دی اسٹوری آف مائی اکسپریمنٹ وِدٹُرتھ” کے نام سے انجام دیا۔ اس کا اردو ترجمہ سید عابد حسین نے کیا ہے۔ جو مکمل ایک جلد کے علاوہ دوجلدوں میں بھی شائع ہوا ہے۔ کئی حصوں پر مشتمل اس سوانح عمری میں ایک عجیب و غریب دنیا آباد ہے جس میں ان کی ابتدائی زندگی کے شب و روز سے لے کر حصول تعلیم کے مرحلے اور عملی زندگی کے تمام تر تجربات پوری سچائی اور آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ اسی سچائی کے حصول کے لیے انھوں نے غذائیت کے تجربے کیے۔ ستیہ گرہ اور عدم تشدد کے اصولوں کو اپنی زندگی کا ناگزیر حصہ بنایا اور تزکیۂ نفس کے عمل کو اپنایا۔  غرضیکہ اس کتاب سے گاندھی جی کے ہر شعبۂ حیات پر روشنی پڑتی ہے۔ اس خود نوشت میں انہوں نے  اخلاقی جرات کا ثبوت پیش کرتے ہوئے، خلوت میں اپنی بیوی کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات، اپنے شہوانی خواہشات، دھتورے کے بیچ کھاکر خودکشی کرنے کا قصد، سگریٹ کے لیے پیسے چرانے جیسی بہت سی باتیں کھل کر بیان کی ہیں۔ اس سوانح کو پڑھ کر ایک مکمل انسان کی شکل میں گاندھی جی ہمارے سامنے رونما ہوتے ہیں۔

گاندھی بابا کی کہانی

Gandhi Baba Ki Kahani

یہ کہانی بڑے ہی دلچسپ انداز میں  لکھی گئی ہے جس میں رزمیہ داستان سی کیفیت ہے۔ ایک بچہ ہری جس کی گھٹی میں گاندھی کے آدرش ڈالے جارہے ہیں۔ ایک دن جب شام کو گھر واپس لوٹتا ہے تو پورا گھر سنسان اور سوگوار ہے۔ پتا چلتا ہے کہ گاندھی کو کسی پاپی نے گولی مار دی۔ بچہ جوش جذبات میں کہتا ہے کہ پتا جی مجھے بندوق دے دیں میں اس پاپی کو گولی مار دونگا۔ نہیں بیٹا ہمارے باپو نے تو یہ سکھایا ہے کہ جان لینا پاپ ہے۔ قدسیہ زیدی نے اس کہانی کو بچوں کے لئے تحریر کیا ہے تاکہ بچوں کو گاندھی جی کے حالات اور تعلیمات کا کچھ گیان ہوجائے۔ بلکہ وہ اس ہندوستانیت  سے بھی واقف ہوجائیں جس کی مثالی شخصیت گاندھی جی تھے اور اس پیام کو سن سکیں جو ہندوستان اپنے سنتوں اور صوفیوں کی زبانی پہچاتا رہا ہے۔

گاندھی نامہ

Gandhi-Nama

اکبر الہ آبادی کی ظرافت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ سیاست، مغربی تہذیب اور حالات حاضرہ ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے بے شمار موضوعات مہیا کرتے ہیں۔ لیکن اکبر نے عملی طور پر کبھی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ جب پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد ہندوستان کی ٹھہری ہوئی سیاست میں گاندھی نام کا ابال ااٹھا اور رولٹ ایکٹ، جلیاں والا باغ کا لرزہ خیز واقعہ، تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت کے ذریعہ پورے ملک میں عملی سیاست کی روح جاگ اٹھی تو اکبر کو اپنے وقت کی سیاست سے دلچسپی پیدا ہوئی یہی گاندھی جی کے عروج اور شہرت کا زمانہ تھا، اسی زمانہ میں اکبر کا انتقال ہوگیا ورنہ اکبر، گاندھی جی کا تذکرہ مختلف زاویوں سے کرتے۔۔۔ اس کے باوجود انہوں نے گاندھی جی کی شخصیت اور عظمت کے پیش نظر ایک اشعار کا مجموعہ مرتب کیا جس کا نام “گاندھی نامہ” ہے۔ یہ پہلی بار ۱۹۴۸ میں شائع ہوا تھا۔ یہ مجموعہ سات عناوین کے تحت گاندھی جی کی مختلف مصروفیتوں کے مطابق تقسیم کیا گیا ہے۔ گاندھی نامہ کی کوئی ایک مخصوص شعری ہیئت نہیں ہے بلکہ یہ ایک مختلف اور متعدد اشعار کا مجموعہ ہے۔ جس میں رباعیات، قطعات اور مفردات، پیروڈی اور تضمین سبھی کچھ شامل ہے۔ گاندھی نامہ نا صرف گاندھی جی کی کوششوں بلکہ بیسویں صدی کے ربع اول کے سیاسی انتشار کا بہت عمدہ مرقع ہے۔

گاندھی کا ہندوستان

Gandhi Ka Hindustan

گاندھی جی کا ہندوستان کثرت میں وحدت کا پرتیک ہے جہاں پر ہزاروں قسم کے لوگ بستے ہیں مگر ان میں نسلی بھید بھاو، مذہبی چھوا چھوت، مسلکی چہ می گوئیاں، تہذیبی ٹکراؤ اور نسلی اختلاف  نہیں ہے سب کے برابر کے حقوق ہیں اور سب کو اپنا حق حاصل کرنے کا پورا حق  حاصل ہے۔ یہاں پر ہر فرد آزاد ہے کہ وہ اپنے حق کی آواز بلند کرے۔ گاندھی جی کا یہی سپنا تھا جو انہوں نے کانسٹیٹیوشن آف انڈیا  کی شکل میں تعمیر کیا تھا۔ گاندھی جی کے انہیں خیالات پر مشتمل کتاب Gandhi’s India Unity in Divesity کا زیر نظر اردو ترجمہ ہے۔ جس کو سید عابد حسین نے نہایت آسان اور عام فہم زبان میں انجام دیا ہے۔

مہاتما گاندھی اہنسا کے پیامبر

Book on Gandhi

اس میں کوئی شک نہیں کہ عدم تشدد یعنی اہنسا کا تصور دینا کو گاندھی جی نے دیا۔ مصنف نے ان خیالات کی وضاحت کتاب کے پیش لفظ میں دلائل کے ساتھ کی ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں خاندانی پس منظر، ابتدائی حالات زندگی اور ولایت کے سفر کا ذکرہے۔ دوسرا باب ان کی جنوبی افریقہ کی سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ تیسرا باب ہندوستانی سیاست میں ان کی سرگرمیوں کا احاطہ کرتا ہے، جس کے طفیل ہم آزادی کی نعمت سے مالا مال ہوئے۔ اس کے علاوہ کتاب کے آخر میں ایک سوانحی اشاریہ بھی شامل ہے۔ جس میں گاندھی جی کی پیدائش سے آخر وقت تک کا ذکر تاریخی ترتیب کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مصنف نے کسی الجھاو یا مشکل کے بغیر تمام نظریات کو نہ صرف پیش کر دیا ہے بلکہ قاری تک ترسیل بہت آسانی سے ہوجاتی ہے۔

گاندھی جی اور مسلمان

Gandhi Ji aur Musalman

گاندھی جی کا قول ہے کہ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی سیمنٹ بننا چاہتا ہوں۔ گاندھی جی ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کی مشترکہ تہذیب ہیں جنہیں ہندو یا مسلمان کے چشمے سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ وہ انسانیت کے دھرم کی پوجا کرتے تھے اور ان کے یہاں سب سے بڑا مذہب انسانیت تھا۔ مگر انسانیت کے اس پجاری کو مذہب کی افیون نے قتل کے گھاٹ اتار دیا اور ان پر مسلمانوں کے تئیں نرم گوشہ رکھنے کا الزام عاید کیا گیا۔ پھر بھی بہت سے مسلمانوں  نے انہیں اپنا غمگسار، مخلص اور ہمدرد نہیں مانا۔ مصنف کے بقول یہ چھوٹی سی کتاب اسی جستجو کا نتیجہ ہے۔ کتاب میں گاندھی کے قتل اور اس کے پس منظر پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی، نیز گوڈسے کے ذریعہ گاندھی پر لگائے گئے الزام کی مکمل وضاحت کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ ریختہ کی ای بک لائبریری میں گاندھی جی کی زندگی، ان کے فلسفہ اور ان کی تحریکات سے متعلق کافی کتابیں موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ کتابیں خود گاندھی جی کی تحریر کردہ ہیں جن کا اردو ترجمہ کیا گیا ہے اور کچھ کتابیں ان کے نظریات و افکار سے متعلق طبع زاد ہیں۔ آپ نیچے دئے گئے لنک پر دونوں طرح کی کتابوں سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

مہاتما گاندھی کے اوپر لکھی گئی کتابیں۔

مہاتما گاندھی کی تحریر کردہ کتابیں۔