Ibn-e-Safi

اردو کا اگاتھا کرسٹی ۔ابنِ صفی(1980-1928)

ابنِ صفی میری معلومات کی حد تک وہ واحد ادیب ہیں جنکا یومِ پیدائش اور یومِ وفات ایک ہی ہے،یعنی 26جولائی ،اس طرح ہم کم سے کم دو برسیاں منانے سے بچ گئے۰انکی زندگی کے ہر گوشے پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ مجھ سے کم علم کو خامہ فرسائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے،لیکن چونکہ ،بچپن میں اولین نقوش انہیں کی تحریروں سے ذہن پر ثبت ہوئے ہیں، اسلئے یہ جسارت کر رہا ہوں

ہمارے بچپن میں ابنِ صفی کے لکھے ہوئے جاسوسی ناول پڑھنا ایک عیاشی اور ناپسندیدہ فعل سمجھا جاتا تھا ،یہ الگ بات ہیکہ جو بزرگ یہ نصیحتیں کرتے تھے ،انکی تکیوں کے نیچے ہمیشہ یہ ناول موجود ہوتے تھے۰ویسے یہ ہر نسل کا المیہ رہا ہے اور ہر جنریشن ، آنے والی جنریشن کے چال چلن پر پہرہ دینا اپنا فرضِ منصبی سمجھتی رہی ہے۰ناپسندیدگی کی وجہ مجھے آج تک نہیں سمجھ میں آئی ۰شاید ناول کے نام سے بھڑکتے رہے ہوں یا موصوف حمید سلمہ کی “ایکٹویٹیز “ گراں گزرتی رہی ہوں ،اسلئے ہمیشہ چھپ کر پڑھنا پڑتا تھا۰حالانکہ دیکھا جائے تو یہ سلسلہ شروع ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ ایک ایسا تفریحی اور صحت مند ادب تخلیق کیا جائے جسکی بنیاد سیکس پر نہ ہو۰اس زمانے میں اردو میں ایسے چٹخارے دار ناولوں کا ایک سیلاب سا آگیا تھا جسکا مرکز جنس(sex)تھا۔ابنِ صفی نے خود ایک جگہ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ جاسوسی دنیا کے پیچھے یہی مقصد کارفرما تھا کہ جنسی سے تلذذ سے پرے صحت مند تفریح مہیا کی جا سکے ۔ان کے تمام ناول ہمیں قانون کی بالا دستی اور مکافاتِ جرم کے ارد گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں ۔چونکہ تھکے ہارے لمحوں کی اکسیر تخلیق کرنی تھی اس لئےان میں رومان بھی ہے ،عشق کی قلابازیاں بھی ہیں ،ظرافت کی پھل جھڑیاں بھی ہیں لیکن ابنِ صفی کا قلم کبھی بھی سستی قسم کی تفریح یا جنسی تلذذ سے آلودہ نہیں ہوتا ہے ۔

ابنِ صفی بنیادی طور ایک شاعر ہیں جنہیں مخصوص حالات کے تحت نثر نگاری کی طرف متوجہ ہونا پڑا لیکن انہوں نے اپنے اندر کے شاعر کو مرنے نہیں دیا اور نثر بھی شاعرانہ لکھی۰انکے ناول اپنے پلاٹ کے حساب سے تو قاری کو مسحور کئے رہتے ہی ہیں ،انکی استادانہ نثر کا جادو بھی کبھی خالی نہیں جاتا ہے۰جملے طبع زاد،ذہانت سے بھرپور اور سب سے بڑھ کر موقع ومحل اور کیریکٹر کی مناسبت سے ۰وہ بہت کثیر المطالعہ تھے اور انکے ناولوں میں دنیا جہان کا فلسفہ بھی ہے لیکن وہ کبھی بھی اپنی “علمناکی”سے تحریروں کو بوجھل نہیں ہونے دیتے ہیں۰میرے خیال سے اگر انہوں نے انگریزی میں لکھا ہوتا تو اگا تھا کرسٹی کی طرح پوری دنیا انہیں بھی جانتی۰شمس الرحمان فاروقی صاحب نے ضرور انکے کچھ ناولوں کو انگریزی کا جامہ پہنانے کی کوشش کی لیکن بات کچھ بنی نہیں۰اصل مسئلہ یہ ہے کہ الفاظ کو تو دوسری زبان میں منتقل کیا جا سکتا ہے لیکن وہ ماحول ،وہ تہذیبی شناخت اور وہ تناظر کہاں سے دوبارہ پیدا کیا جائے، جو ان ناولوں کا محرک تھا۰انگریزی والے اگر اس سے اپنے کو ہم آہنگ نہیں کر پائے تو یہ انکی غلطی نہیں ہے اور نہ ہی اس سے ابنِ صفی کی عظمت پر کچھ حرف آتا ہے

Ibn-e-Safi

ابنِ صفی کی اپنی نظرمیں انکا محبوب کیریکٹر احمد کمال فریدی ہے لیکن اگر عام قارئین سے پوچھا جا ئے تو انکی پسند عمران پر ٹھہرے گی۰وہ اپنی گوناگوں حماقتوں اور موقع سے فائدہ اٹھا نے کی صلاحیت کے سبب عام انسانوں سے زیادہ قریب ہے ،جبکہ فریدی ایک سنگلاخ اور عام انسانی جذبات سے عاری شخص ہے ۰ابنِ صفی کو احساس تھا کہ انہوں نے ایک “سپر ہیومن “تو تخلیق کردیا لیکن قارئین کو اسے “جھیلنا”مشکل ہوگا ،سو انہوں نے حمید اور قاسم کی شکل میں دو بیساکھیاں لگا دیں۰سنگ ہی اور تھریسیا، جو برائی کی علامت ہیں،انکے لازوال کیریکٹر ہیں اور بار بار انکے ناولوں میں آتے ہیں ۔اپنی تمام تر خباثتوں اور برائیوں کے باوجود وہ قاری کے ذہن سے چپکے رہتے ہیں ۔تھریسیا کی عمران سے یک طرفہ محبت دل میں ہمیشہ ایک کسک چھوڑ جاتی ہے۔اسی طرح ایکسٹو کی پوری ٹیم عمران سیریز میں قارئین کی دلبستگی کا سامان فراہم کرتی ہے ۔خاص طور جولیانا کا کردار ایسا ہے جس سے قاری کو ہمیشہ ہمدردی محسوس ہوتی ہے ۔عمران کی تمام تر حماقتوں اور بے اعتنائی کو وہ جس طرح وہ جھیلتی ہے ،وہ صرف اسی کا خاصہ ہے ۔اسی طرح سیاہ فام جوزف ،جس کی یومیہ چھ بوتل کا کوٹہ پوراکرنے میں عمران صاحب کو دانتوں پسینے آجاتے ہیں لیکن یہ “سست جانور”جب شکار کے وقت جاگتا ہے تو اس کی کارکردگی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ان کرداروں کا کمال یہ ہے کہ یہ ہماری دنیا کے جیتے جاگتے انسان لگتے ہیں اور ہمیں کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتاہے ۔۰ابنِ صفی کے ناولوں پر بہت سے لوگوں نے ہاتھ صاف کیا ہے اور فریدی ،حمید اور عمران کے ذریعہ گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کی ہے لیکن کوئی بھی کامیاب نہیں ہو پایا ہے۰ آخری عمر میں تخلیق کیا ہوا انکا کردار جیمسن مجھے بہت پسند ہے اور اسکے ذریعہ، جو تنقید وہ اردو ادب اور کلاسیک پر کرتے ہیں ،اسمیں ایک کہنہ مشق نقاد کی تنقیدی بصیرت تو ہے ،لیکن انداز چونکہ ظریفانہ ہے ،اس لئے اس کی میٹھی مار بہت دیر تک لبوں کو ایک خفیف سی مسکراہٹ سے خمیدہ رکھتی ہے ۔سردار جعفری پر انکا کمنٹ “پتھر توڑتے ہیں “بہت معنی خیز ہے ۔اسی طرح ایک ناول میں نئی شعری رجحان پر وہ اپنے ایک کیریکٹر سے اس طرح تنقید کراتے ہیں کہ “آج کل ہر دوسرے شعر میں “شہر “کا تذکرہ ضرور ملتا ہے “۔یاکہ “سب کے کلام ایک جیسے ہی لگتے ہیں ،ایسا لگتا ہے کہ سب ایک ہی استاد سے لکھوا کر لاتے ہیں “

ابنِ صفی نے بہت کم عمر پائی اور صرف باون سالوں میں وہ اس جہاں سے رخصت ہو گئے لیکن وہ ایک قابلِ فخر سرمایہ چھوڑ کر گئے ہیں۰دو سو پچاس سے اوپر ناول ،طغرل فرحان کے نام سے لکھے گئے فکاہئے،اور دیگر مضامین ہر نسل کو متاثر کرتے رہیں گے۰اپنے تخلیقی سفر میں انہوں نے دو سال ایسے بھی دیکھے ہیں جب وہ باوجود تمام کوشش کے کچھ نہیں لکھ پائے۰ایک ناقابلِ فہم بیماری نے انہیں آ گھیرا تھا۰دعا اور دوا دونوں ہی انکے سوکھ گئے تخلیقی سوتے کو زندہ کرنے میں بری طرح ناکام ہو چلے تھے کہ حکیم محمد اقبال حسین صاحب نے مسیحائی کی اور عمران سیریز کے ناول “ڈیڑھ متوالے “سے انکی شاندار واپسی ہوئی۰ایک زمانہ ایسا تھا کہ ہر مہینہ انکا ایک ناول آتا تھا لیکن مجال ہے کہ کبھی کوئی ناول معیار سے گرا رہا ہو۰بسیارنویسی ایک ادیب کو کہیں کا نہیں چھوڑتی ہے لیکن یہ کبھی بھی انکے لئے ایک سقم نہیں بنا۰” آخری آدمی” کے نام سے آیا ناول انکی زندگی کی آخری تخلیق ہے۰بسترِ مرگ پر لکھا گیا انکا یہ شعر کیسی کسک بیان کر رہا ہے

ابھی سے کیوں شام ہورہی ہے
ابھی تو جینے کا حوصلہ ہے

بہت سے لوگوں کا خیال ہیکہ جاسوسی دنیا نے ہم سے ایک ایسے شاعر کو چھین لیا جو اردو شاعری کو اور با ثروت بنا سکتا تھا اور دنیا ابنِ صفی کے بجائے اسرار ناروی کو جانتی۔ان کے ان اشعار کو دیکھئے

گھٹ کے رہ جاتی ہے رسوائی تک
کیا کسی پردہ نشیں سے ملئے۰

زمیں کی کوکھ ہی زخمی نہیں اندھیروں سے
ہے آسماں کے بھی سینے پہ آفتاب کا زخم

دل سا کھلونا ہاتھ آیا ہے
کھیلو،توڑو،جی بہلاؤ

بلآخر تھک ہار کے یارو ،ہم نے بھی نے بھی تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا،باقی سب افسانے ہیں

لکھنے کو لکھ رہے ہیں ،غضب کی کہانیاں
لکھی نہ جا سکی مگر اپنی ہی داستاں

یہ چند اشعار مشتے نمونے از خروارے نقل کر دئے ہیں ۔اس قبیل کے خوبصورت اشعار ان کے کلام میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں ۔

Ibn-e-Safi

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر وہ صرف شاعری ہی کی طرف توجہ کرتے تو ہمیں نوح ناروی کا جانشین تو مل جاتا لیکن اردو ادب ابنِ صفی سے محروم رہ جاتا ۔“ادبِ عالیہ “کے خوشہ چین اور پرستار لاکھ ناک بھوں چڑھائیں ،لیکن جو شہرت انھیں ملی ،وہ اور کسی کے حصہ میں نہیں آئی ۔خود ادبِ عالیہ والے چھپ چھپ کر ان کے ناول پڑھا کرتے تھے۔دو سو پچاس میں سے چند ناولوں کو چھوڑ کر ،جن کا مرکزی خیال انگریزی ناولوں سے ماخوذ ہے ،باقی سارے ناول طبع زاد اور ادب کی چاشنی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔نئے لکھنے والوں کو ترغیب دی جاتی تھی کہ وہ ان کے ناول پڑھیں کہ اس سے جملہ سازی میں مدد ملتی ہے اور اچھی نثر لکھنے کی ترکیب معلوم ہوتی ہے ۔ان کے ناول زبان وبیان کے لحاظ سے کسی بھی ادبی شہ پارے کے مقابلے میں رکھے جا سکتے ہیں ۔جس طرح سے انھوں نے ایک نسل کو متاثر کیا ہے اور آج بھی کر رہے ہیں ،اسکی نظیر نہیں ملتی ہے اور یہی ان کی سب سے بڑی علمی وراثت ہے ۔خلقِ خدا میں یہ بات مشہور ہے کہ کتنے ہی ہیں ،جنھوں نے اردو صرف اس لئے سیکھی کہ ابنِ صفی کو پڑھ سکیں ۔ایک مصنف کے لئے اس سے بڑا تمغہ اور کیا ہو سکتا کہ ایک زبان اس کے توسط سے جانی اور پڑھی جائے۔

ابنِ صفی کو احساس تھا کہ ابھی بہت کچھ کہنا اور لکھنا ہے لیکن افسوس زندگی نے اتنی ہی مہلت دی۔خود ان کے الفاظ میں

جو لکھ گئے وہی ٹھہرا ہمارا فن اسرار
جو لکھ نہ پائے نجانے وہ چیز کیا ہوتی