Womens-Day-Blog Cover

گم شدہ خواتین ناول نگار

یہ ذکر ہے اس وقت کا جب تقریبا ہر گھر میں عورتیں بہت شوق سے ادبی جرائد، مختلف رسائل اور ڈائجسٹ پڑھا کرتی تھیں۔ ان میں کہانیاں اور ناولس قسط بار چھپتی تھیں۔۔۔ ایک قسط پڑھ کر دوسری کا انتطار بڑی شدت سے کیا جاتا تھا۔

یہ ذکر ہے ان خواتین کا جنہوں نے بیسویں صدی کے وسط میں اصلاحی، رومانی اور معاشرتی ناول سے اصلاح معاشرہ کا کارنامہ انجام دیا۔۔۔ یہ وہ دور ہے جب اردو ناول نگاری میں ایک سیلاب آیا ہوا تھا۔ مرد ناول نگاروں کے شانہ بشانہ خواتین ناول نگاروں نے بھی قارئین کو اپنی طرف تیزی سے متوجہ کیا۔ یہ ناول ایک طرح سے ہلکی پھلکی رومانی فضا، عشق و عاشقی کی ترجمانی، گھریلو مسائل اور عوامی افکار و خیالات کی ترجمانی کرتے تھے۔ آج کے ٹیوی سیریلس اور ویب سیریز کی طرح ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔۔۔ یہ ناول اپنے قارئین کو تفریح اور مسرت و شادمانی کا سامان مہیا کرتے تھے۔ اس طرح کے ناول ریلوے اسٹیشنس، شہروں میں مخلتلف بک اسٹالس پر آسانی سے بہت کم پیسوں میں مل جاتے تھے۔

ان ناولوں نے ایک پوری نسل کو مطالعہ کا عادی بنایا، اور یہی عادت سنجیدہ ادب کے ایوان میں داخلے کی پہلی منزل ثابت ہوئی۔۔۔ آج اس طرح کے ناولوں کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ ان کے لکھنے اور پڑھنے والے دونوں نظر نہیں آتے۔۔۔ گویا ان ناولوں پر وقت کی دھول سی پڑ گئی ہے۔

بھلا ہو ریختہ کا کہ اس نے ان ناولوں کو محفوظ کردیا ہے۔۔۔ آج خواتین کے عالمی دن کے موقع پر چند ایسی ناول نگار خواتین کا ذکر ضروری ہے، جنہوں نے ناول نگاری کے لئے خود کو وقف کردیا تھا۔۔۔ لیکن آج اردو ادب میں ان کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔۔۔

عفت موہانی

عفت موہانی کا اصل نام، رشید خورشید سلطان تھا۔۔۔  25 جولائی 1934 کوحیدرآباد میں پیدا ہوئیں اور یہیں 16 نومبر  2005میں انتقال ہوا۔۔۔ مقبول ناول نگاری کے رجحان کو انہوں نے توانائی بخشی، اور معاشرتی ناول نگاری کو فروغ دیا۔۔۔ انہوں نے معاشرہ کے باریک سے باریک پہلووں پر بیباکانہ اظہار کیا اور تبدیل ہونے والے معاشرہ میں ہر اس چیز کو رد کرنا چاہا جو معاشرتی تغیرمیں رکاوٹ تھے۔۔۔ انہوں نے سو کے قریب ناول تخلیق کئے۔۔۔ ان کے زیادہ تر ناول نسیم بک ڈپو سے شائع ہوئے۔۔۔ ان کے کم و بیش تمام ناول ریختہ پر موجود ہیں۔۔۔

رضیہ بٹ

رضیہ  بٹ 1924 کو وزیر آباد پنجاب میں پیدا ہوئیں۔۔۔ اور 5 اکبوبر 2012 کو لاہور میں انتقال ہوا۔۔۔ رضیہ بٹ کو عام گھریلو قارئین میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔۔ رضیہ بٹ نے پچاس سے زائد ناول تحریر کئے۔۔۔ ان کے ناولوں کو اپنے وقت میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔۔۔ خاص کر ان کا ناول ‘بانو’ جو قیام پاکستان کے بعد مںطر عام پر آیا، اس ناول کو ٹیلی ویژن پر بھی پیش کیا گیا۔ رضیہ بٹ کے ناولوں میں پاکستانی معاشرے میں عورت کے کردار کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔۔۔ مثلا ان کے ناول نائلہ، صاعقہ، انیلہ، شبو، بانو، ثمینہ، ناجیہ، شائنہ، سبین ، رابی اور بینا سب کے سب عورت کے مرکزی کردار کے گرد بنے گئے ہیں۔ رضیہ بٹ کے تمام ناول ریختہ سائٹ پر موجود ہیں۔۔۔

دیبا خانم

دیبا خانم بیسویں صدی میں نصف آخر کی مقبول ناول نگار ہیں۔۔۔ ریختہ  کے پاس ان کے تقریبا پینتالیس ناول ہیں۔۔۔ ان کے ناولوں کے موضوعات بھی اصلاحی، معاشرتی اور رومانوی ہیں۔۔۔ دیبا خانم کی کہیں کوئی ڈٹیل موجود نہیں ہے۔۔۔

سلمی کنول

سلمی کنول ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پڑھی جانے والی سب سے مقبول خاتون ہیں۔۔۔ سملی کنول کا تعلق لاہور سے ہے۔ انہوں نے چالیس سے زائد ناول لکھے۔۔۔ ان کی ناولوں کا مرکزی خیال، اپنا ذاتی کرب، خواتین کی ذات اور مسائل ہیں۔۔۔ یہی وجہ ہے، ان کو پڑھنے والے قارئین میں بھی بڑی تعداد خواتین ہی کی تھی۔ ان کے متعدد ناولوں پر فلمیں اور ڈرامے بھی بنائے گئے۔ 2005 میں لاہور میں انتقال ہوا۔۔۔ ریختہ کے پاس ان کے چھبیس ناول موجود ہیں۔۔۔

عطیہ پروین

عطیہ پروین بلگرامی، قصبہ بلگرام ضلع ہردوئی (اترپردیش) میں پیدا ہوئیں۔۔۔ ان کا خود کا بیان ہے کہ انہوں نے تیرہ سال کی عمر میں پہلی کہانی لکھی۔۔۔ اس وقت کے رسائل کے ذریعہ آہستہ آہستہ ان کو ادب میں مقام ملنا شروع ہوا۔۔۔ ڈائجسٹ اور خاص کر خواتین کے رسائل میں ان کے ناولوں کی قسط وار اشاعت ہوئی۔ ان کے ناول سماجی ماحول اور حالات، گھریلو مسائل اور گھر آنگن کے درد و کرب کو اجاگر کرتے ہیں۔ عطیہ پروین نے اب تک 35 ناول لکھے ہیں۔ ان کے زیادہ تر ناول نسیم بک ڈپو، لکھنؤ سے شائع ہوئے۔ کچھ ناولوں کے ہندی اور پنجابی تراجم بھی ہوئے۔۔۔ ریختہ کے پاس ان کے پچیس سے زائد ناول موجود ہیں۔۔۔

مینا ناز

ساٹھ کی دہائی میں جب خواتین کے ناول بڑے شوق سے پڑھے جا رہے تھے، مینا ناز کے فرضی نام سے ایک خاتون سامنے آئیں، اور مقبول ناول نگاری کی دنیا میں دھوم مچادی۔۔۔ مینا ناز کے ناولوں میں عورت کے معاملات، ان کی نفسیات و مسائل کا نہایت حقیقی انداز میں ذکر ہوتا تھا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کا طبقہ اس کو اپنے کافی قریب پاتا تھا۔۔۔ مینا ناز کا اصل نام ‘امین نواز’ تھا، یہ پیشے سے ایک درزی تھا۔۔۔ اسے بچپن میں لوگ پیار سے ‘مینا’ پکارتے تھے۔ اس نے اسی نام کو قلمی نام بنانے کا ارادہ کیا۔ پبلشر سے بات چیت میں ‘مینا نواز’ بطور قلمی نام تجویز ہوا۔ پبلشر نے مینا نواز کے بجائے ‘مینا ناز’ پر زور دیا۔ قارئین کے لئے یہ نام زیادہ پرکشش تھا۔ مینا ناز نے اپنی شخصیت کو کبھی بے نقاب نہیں کیا۔ اسے کاروبار سے غرض رہی۔ مینا ناز نے تقریبا سو سے زائد ناول تحریر کئے۔۔۔ ریختہ پر مینا ناز کے 68 ناول موجود ہیں۔۔۔

زلیخا حسین

زلیخا حسین کیرالہ کی پہلی اردو ناول نگار خاتون ہیں۔۔۔ 1930 میں کیرالا کے کوچین شہر میں پیدا ہوئیں۔ محض پندرہ سال کی عمر میں شادی ہوگئی، شادی کے بعد بھی پڑھنے لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔۔۔ ابتدا میں چھوٹی چھوٹی نسوانی کہانیاں، افسانے وغیرہ ماہنامہ ‘خاتون مشرق’ اور ‘شمع’ میں لکھتی رہیں۔ پھر بیس سال کی عمر میں ان کا پہلا ناول ‘میرے صنم’ منظر عام پر آیا جس کو کافی مقبولیت ملی، اس طرح انہوں نے تقریبا ستائیس ناول تحریر کئے۔۔۔ ان کے ناول دہلی سے شائع ہوا کرتے تھے، کیرالا میں اردو ناول نگار کی حیثیت سے زلیخا حسین کو بہت کم لوگ جانتے تھے۔ اور انہوں نے کبھی اس کی پرواہ بھی نہیں کی۔۔۔ ریختہ پر زلیخا حسین کے 23 ناول موجود ہیں۔۔۔

اس  کے علاوہ مسرور جہاں، اے آر خاتون، نادرہ خاتوں، وحیدہ نسیم، حمیدہ جبیں، واجدہ تبسم، حسنہ جیلانی، صفیہ سلطانہ، شکیلہ اختر، رفیعہ منظور الامین ، جمیلہ ہاشمی ،آمنہ ابوالحسن، ضغری مہدی، بشری رحمن، شہناز کنول، ناہید سلطانہ اختر، ہاجرہ مسرور وغیرہ خواتین کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے سماج کے وقتی تقاضوں کو سامنے رکھ کر درجنوں اصلاحی و معاشرتی ناول تحریر کئے بلکہ کچھ خواتین نے تو ناولوں کے نام اپنی پوری زندگی وقف کردی۔۔۔ اور ان لوگوں نے اپنے قاری پیدا کئے۔ پڑھنے والوں کا ایک برا سماج تشکیل دیا۔ آج اردو ادب میں کہیں ان کا کوئی تذکرہ نہیں۔۔۔ لیکن ریختہ ای بکس میں ان لوگوں کی کم و بیش تمام تحریریں محفوظ ہوتی جارہی ہے۔