Sikkon ki Kahani aur Muhavare

سِکّوں کی کہانی اور ہمارے محاورے

اگر آج آپ کسی فقیر کو ایک روپیہ خیرات میں دیں تو پہلے وہ اس ایک روپے کے سکّے پر حیرت کی نظر ڈالے گا پھر آپ کو حقارت کی نظر سے ایسے دیکھے گا گویا کہہ رہا ہوکہ اگر تیری اوقات اتنی ہی ہے تو بھیک کا پیالہ اٹھا اور چل میرے ساتھ اور دیکھ کہ آج کل دینے والے بھیک میں کیا دیتے ہیں۔ آج کے دور میں ایک روپیے کے سکّے کی جو بے بضاعتی ہے، آج سے پہلے تاریخ کے کسی دور میں شاید ہی رہی ہو۔ ایک زمانہ تھا جب ایک روپیے کی ہی نہیں، ایک پیسے کی بھی بہت اہمیت تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ایک روپیے میں چونسٹھ پیسے ہوا کرتے تھے۔آج جب ایک روپیے کی ہی کوئی حیثیت نہیں ہے تو ایک پیسے کی کیا اوقات ہوگی جو ایک روپیے کا سوواں حصہ اور سِکّوں کے نظام کا سب سے چھوٹا یونٹ ہے ، اتنا چھوٹا یونٹ کہ اب ایک پیسے کا سکہ دیکھنے کو بھی نہیں ملتا اور دو پیسے، پانچ پیسے، دس پیسے، بیس پیسے اور پچیس پیسے کے سکّے باضابطہ طور پرچلن سے باہر ہو چکے ہیں اور پچاس پیسے کے سکّے کو کوئی دوکان دار لینے پر راضی نہیں ہے گو یہ سرکاری طور پر ابھی چلن سے باہر قرار نہیں دیا گیا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو آج کل ایک روپیے کا سکّہ ہی کرنسی کا سب سے چھوٹا یونٹ بن کر رہ گیا ہے۔

ایک زمانے میں ایک روپیے میں سولہ آنے ہوتے تھے، ایک آنے میں چار پیسے ، ایک پیسے میں دو دھیلے ، ایک دھیلے میں دو دمڑیاں یا تین پائیاں اور ایک دمڑی میں دس کوڑیاں ہوتی تھیں۔ اس حساب سے ایک روپیے کی مالیت 16 آنہ = 64 پیسہ = 128 دھیلہ =192 پائی =256 دمڑی = 2560 کوڑی تھی۔ اس سے آپ اُس زمانے میں ایک روپیے کی قدر و قیمت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

آج کل ایک روپیے کا جو سکہ چلن میں ہے، وہ کئی مرحلوں سے گزر کر اس مقام تک پہنچا ہے۔روپیے کا سکہ سب سے پہلے شیر شاہ سوری نے اپنے دورِ حکومت میں 1540ء اور 1545ء کے بیچ جاری کیا۔ چاندی کے اس سکے کا وزن تقریباً ساڑھے گیارہ گرام تھا ۔ اس کے علاوہ شیر شاہ سوری نے سونے کے سکے بھی جاری کیے جنھیں ’مہر‘ کہتے تھے اور تانبے کے سکے بھی چلائے جنھیں ’پیسہ‘ کہا جاتا تھا۔ مغل شہنشاہ اکبر نے بھی اپنے دور حکومت کے آغاز میں شیر شاہ سوری کے ہی مالیاتی نظام کو اپنایا جس کے تحت (سونے کی) ایک مہر میں( چاندی کے) نو روپیے ہوتے تھے اور (چاندی کے) ایک روپیے میں (تانبے کے) چالیس پیسے ہوتے تھے جنھیں اکبر کے زمانے میں ’دام‘کہا جاتا تھا۔

ہندوستان میں قدیم زمانے سے ہی سِکّوں کی طرح کوڑیوں کا بھی چلن تھا ۔ یہ کوڑیاں کسی ٹکسال میں ڈھلے ہوئے دھات کے سکّے نہیں تھے، بلکہ یہ سمندر میں پائی جانے والی سیپیوں کی ایک قسم تھی ۔ چالیس کوڑیوں کی مالیت ایک پیسے یا تین پائیوں کے برابر تھی۔ یہی نہیں، صحیح و سالم کوڑیوں کے ساتھ ساتھ ٹوٹی ہوئی کوڑیاں بھی سِکّوں کی طرح چلن میں تھیں جنھیں پھوٹی کوڑی کہا جاتا تھا۔ یہ گویا اس زمانے کی کرنسی کا سب سے ادنیٰ یونٹ تھا۔ ایک کوڑی تین پھوٹی کوڑیوں کے برابر ہوتی تھی۔ کوڑیوں اور پھوٹی کوڑیوں کا چلن زمانۂ قدیم سے لے کر 1825ء تک ہندوستان کے کئی علاقوں میں جاری رہا۔ جب تک کرنسی کا اعشاروی نظام لاگو نہیں ہوگیا، ایک روپیےکی مالیت 16 آنے یا 64 پیسے کے برابر رہی لیکن 1957 میں اعشاروی نظام لاگو ہوجانے کے بعد ایک روپیہ سو پیسے کا ہوگیا۔ اس وقت ایک نئے پیسے کی بھی اتنی قدر و قیمت تھی کہ ایک پیسے کے سکے بھی جاری کیے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پیسے کی ناقدری کا یہ عالم ہوگیا کہ 30؍ جون، 2011 کو وزارت خزانہ نے پچیس پیسے تک کے سکے چلن سے واپس لے لیے۔

سِکّوں کی مالیت اور نام چوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں اس لیے قانونی دستاویزات میں کسی چیز کی مالیت کا ذکر کرتے وقت ’’سکۂ رائج الوقت‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، مثلاً نکاح کے وقت مہر کی رقم کے ساتھ۔اس کے علاوہ ہماری زندگی میں پیسے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ رائج الوقت سِکّوں سے متعلق محاورات بھی وضع ہوکر ہماری روز مرہ کی گفتگو کا حصہ بن جاتے ہیں اور جب ان سِکّوں کا چلن ختم ہوجاتا ہے تو ان سے متعلق ضرب الامثال اورمحاورات بھی رفتہ رفتہ ہماری بول چال سے باہر ہوکر لغات میں بند ہوجاتے ہیں۔ایک زمانہ تھا جب پھوٹی کوڑی، کوڑی، دام، دمڑی، آنے، پائی جیسے کرنسی کے پرانے نام ہمارے محاوروں میں خوب استعمال کیے جاتے تھے۔اگر کسی کو کچھ بھی نہ دینا ہوتا تو کہا جاتا کہ ’’میں تجھے پھوٹی کوڑی بھی نہیں دوں گا‘‘۔ کوئی چیز بے حد سستی بیچ دینے پر کہا جاتا تھا کہ ’’فلاں شخص نے اپنا مکان کوڑیوں کے مول بیچ دیا‘‘۔ کنجوس شخص کے لیے ’’چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے‘‘ کا محاورہ استعمال کیا جاتا تھا، شاید اس لیے بھی کہ وہ ’’پائی پائی کا حساب رکھتا تھا‘‘ لیکن ایک پائی بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔

کسی کی بات کی سچائی کی پرزور تصدیق کرنےکے لیے کہا جاتا تھا کہ ’’آپ کی بات سولہ آنے سچ ہے‘‘۔ نکمے نوکر کی شکایت کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ’’ہمارا ملازم دھیلے کا کام نہیں کرتا‘‘۔ کسی کے سامنے نہایت انکسار سے کام لیتے ہوئے کہتے تھے کہ ’’جناب میں آپ کا بندۂ بے دام ہوں‘‘۔ کسی کام میں دہرے فائدے کی بات ہوتی تو کہتے ’’آم کے آم، گٹھلیوں کے دام‘‘۔ اسی طرح ’’اشرفیاں لٹیں، کوئلوں پر مہر ‘‘ اور ’’اندھیر نگری چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا ‘‘ جیسے محاورے بھی اپنے زمانے میں رائج سکوں کی طرح خوب استعمال ہوتے تھے لیکن اب ان قدیم سکوں کی طرح ہماری زبان میں چلن سے باہر ہوگئے ہیں اور آج ہماری نئی نسل کے بیشتر افراد ان کے ناموں سے بھی واقف نہیں ہیں۔