Urdu Shayari mein amrad parasti ke rang

اردو شاعری میں امرد پرستی کے رنگ

امرد پرستی کے لغوی معنی خواہ کچھ بھی ہوں، اردو شاعری کی روایت میں یہ اصطلاح مختلف معنی میں رائج ہے۔ جیسا کہ عام طور پہ ہم امرد پرستی سے ایک خاص جنسی معنی مراد لیتے ہیں۔ اس کی حیثیت شاعری کی کائنات میں بڑی حد تک ثانوی ہے، اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس اصطلاح کے جنسی معنی نہیں ہیں، لیکن ہمیں اپنی تاریخ اور اپنی تہذیب کے آئینے میں یہ ترکیب خاصی متبرک بھی نظر آتی ہے۔ اس اصطلاح کی یہ خاصیت ہے کہ اس میں معنوی اعتبار سے کلیتاً اختلاف پایا جاتا ہے۔ ذرا تاریخی تناظر میں اس کے معنی کی تلاش کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ عربی شاعری میں اس کا تصور خاصا تنگ ہے۔ عربی زبان کے وہ شاعر جو دور جاہلیت اور مابعد جاہلیت سے تعلق رکھتے تھے، مثلاً سجع، امرالقیس، شنفریٰ، متنبی اور ابوالعلاء معری وغیرہ ان کی شاعری میں امرد پرستی کے بجائے نسائیت پرستی کا رجحان غالب تھا۔ مثلاً امرالقیس کے اس قصیدے میں جو اس نے اپنی محبوبہ عنیزہ کے لیے لکھا تھا اور وہ سبعہ معلقہ میں شمار کیا گیا ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کس خوبی سے عورت کے حسن کا اظہار کر کے اس سے اپنی جذباتی وابستگی ظاہر کرتا ہے۔

اسی طرح ہمام بن غالب صعصہ نے بھی عورتوں کی تعریف میں قصائد کہے ہیں جو قصائد فرزدق کے نام سے مشہور ہیں۔ البتہ ابونواس کی شاعری میں شراب کی تعریف کے ساتھ ساتھ امرد پرستی کا رجحان بھی ملتا ہے، لیکن بہت مختصر سا، کیوں کہ اس کا اصل عشق ایک عورت ہی تھی جس کا نام امیمہ تھا اور اس نے امیمہ کے غم میں مبتلا ہو کر زیادہ شاعری کی ہے۔ ادھر فارسی شاعری میں ہمیں عباسی عہد حکومت کے شعرا کے یہاں امرد پرستی کا رجحان ملنا شروع ہو جاتا ہے اور ایک لمبی تاریخ ہے جن کے کلام میں یہ رجحان مختلف انداز میں نظم ہوا ہے۔ رودکی جو کہ فارسی زبان کا پہلا شاعر کہلاتا ہے، اس سے لے کر ہندوستانی شاعر امیر خسرو تک چار سو برس کی فارسی شاعری کی تاریخ میں اس رجحان نے خاصی ترقی کی۔ کافر عشقم کے شاعر کے معاصرین مثلاً حافظ شیرازی جنہیں غزل کا امام بھی کہا جاتا تھا، ان کے کلام میں امرد پرستی کثرت سے پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ابوسعید ابوالخیر، مولانا روم، جامی، ابومنصور، منوچہری، ناصرخسرو، فرید الدین عطار، نظامی گنجوی اور صائب تک کے کلام میں امرد پرستی کے مضامین بڑی تعداد میں ملتے ہیں۔ لیکن یہ امرد پرستی خاصی الجھانے والی ہے، کہیں تو اس میں خاص رنگ ‘خط بڑھا کاکل بڑھے’ والا نمایاں ہوجاتا ہے اور کہیں یہ رنگ خالص ایک صوفیانہ معیار کے مطابق عمل تخلیق میں ظاہر ہوتا ہے۔

مولانا روم کی شاعری اس معاملے میں سب سے اہم ہے، مثلاً کون تصور کر سکتا ہے کہ شمس تبریز جو ‘یک دست جام و مینا و یک دست زلف یار’ کی تکرار لگا رہے ہیں وہ معشوق حقیقی کی زلف ہے اور مولانا روم اسی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے پیر کی امرد پرستی کی اتباع کر رہے ہیں، لکھنے والوں نے تو مولانا کو اس معاملے میں بھی شاہد باز لکھ دیا ہے، لیکن تاریخ اور روایت یہ بتاتی ہے کہ شاہد بازی یونانی کلام میں دیوتیما اور فلثس کے کلام میں جس طرح کی ہے، صوفیانہ رواج اس سے مختلف ہے۔ یہاں مرد کی عبادت اور اس کا تصور پاکیزہ قسم کا ہے، جس میں جنسیت شامل نہیں ہوتی بلکہ تقلید کی راہ پیدا ہوتی ہے۔

جنسیت زدہ امرد پرستی جسے دلی کی بازاری زبان میں ‘لونڈے بازی’ کہا جاتا ہے وہ حافظ کے کلام میں کئی جگہ نمایاں ہوتی ہے۔ اب اسی راستے سے اردو میں داخل ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ دکن کی سر زمین جہاں اردو شاعری نے اول اول قدم جمائے وہاں تصوف کی تکرار امرد پرستی کے مزاج میں پر پھیلاتی چلی گئی، ممکن ہے کہ ایسا نہ ہوتا، لیکن یاد کیجیے کہ 1324 عیسوی میں جو شاہی حکم پہ دکنی کی سمت ہجرت ہوئی تھی اس نے دلی کو بائیس خواجہ کی چوکھٹ بنا دیا اور یہاں کا تیئسواں خواجہ جس کا نام گیسو دراز تھا وہ بہمن زادے کی حکومت کی طرف کوچ کر گیا تھا۔ معراج العاشقین خواہ خواجہ گیسو کی ہو نہ ہو، مگر ان کا دوسرا کلام بتاتا ہے کہ اس میں امرد پرستی کا وہی عنصر ہے، جو میر عبدالواحد بلگرامی کی شناخت تھا۔

بہمنی دور کا اردو کلام جتنا دستیاب ہے، اس میں یا ‘غوث’ کی پکار بہت اونچی ہے۔ اب جہاں قادری برہمن زادے شعر کو آراستہ کریں گے، وہاں نمایاں طور پہ چوما چاٹی کی باتیں ملیں گی ہی نہیں، ہماری قسمت اس معاملے میں خراب ہے کہ ہمارا ادبی سرمایہ بزرگان دین کا تحریر کیا ہوا ہے، چھچھور پن جو کہیں کہیں آنکھیں کھولتا ہوا نظر آتا ہے، وہ نہایت عوامی قسم کے شعرا میں جنہیں اس دور کی حکومت نے لائق اعتبار نہ جانا، آپ نظامی کی کدم راو پدم راو دیکھیں اس میں عورت ہی ہے۔ نظامی اگر دکن کے بجائے اس دور کی دلی میں ہوتا یا اس سے کچھ بعد کی، تو غالباً جعفر زٹلی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے لیے دکن سے کچھ الگ راہ نکالتا اور غالب گمان یہ ہی ہے کہ وہ الگ راہ لونڈے بازی کی ہوتی۔ بعد کے دور میں ملا وجہی، ہاشمی، قلی، نصرتی اور غواصی سبھی نے وہی پیپری بجائی۔ 1701 میں جب دکن اور دلی ملے تب کہیں جا کے ‘نقاب رخ اٹھا کچھ اس طرح آہستہ آہستہ’ کہ دلی کا رنگ سخن ہجرت کر کے دکن پہنچا۔ اب صاحب آئیے اپنی دلی میں، جس نے نہ صرف یہ کہ امرد پرستی کے میدان میں کھل کھیلنے کی حد تک ہاتھ دکھائے بلکہ ایسے ایسے خیال باندھے کہ لونڈوں کو اپنی قسمت پہ رشک آنے لگا۔ یہاں مردوں کی قیمت عورتوں کے مقابلے میں کئی گنا بڑھی ہوئی معلوم ہوتی ہے، آپ آرزو اور آبرو تک کی نسل کو چھوڑ دیجیے کیوں کہ وہ بھی فارسی کی شاعری ہی ہے، جس نے حافظ سے استفادہ کیا، کچھ گلی کوچوں کی باتیں ہوئیں اور کچھ اوچھی لفظیات سے شاعری کو مزین کرتی رہیں، جعفر کے کلام میں لونڈے بازی صرف منہ چڑاتی ہوئی گزرتی ہے۔ آبرو تو ایک جگہ کہتے ہیں کہ

جو لونڈا چھوڑ کر رنڈی کو چاہے
وہ کوئی عاشق نہیں ہے بوالہوس ہے

اس باب میں خشت اول آبرو، عزلت، فغاں، یقین، مصحفی اور پھر میر تقی میر کے کلام میں رکھی گئی۔ ان شعرا نے اپنے محبوب کو مذکر ہی باندھا، کہیں کہیں وہ محبوب مونث ہوتا بھی ہے تو ادائیں اس میں لونڈوں والی ہی پائی جاتی ہیں۔ زنخوں اور نیم مردوں سے عشق، لڑکوں اور بالوں سے عشق، نوجوانوں اور کچی عمر کے کھلنڈرے بچوں سے عشق یہ دلی اردو شاعری کا طرہ امتیاز تھا۔ فیض آباد اور لکھنو میر کے زمانے میں آباد ہو چکے تھے، جہاں لکھنو میں ریختی اور مرثیہ خوانی کا فن ترقی کر رہا تھا، حالانکہ لکھنو میں بھی بعد کو چل کر اس کا رواج عام ہو گیا چنانچہ آتش کہتے ہیں

امرد پرست ہے تو گلستاں کی سیر کر
ہر نونہال رشک ہے یاں خورد سال کا

وہیں شہر دلی میں لڑکوں کی ترشی ہوئی مونچھیں اور گدرائی ہوئی جلد کا خمار نشہ آور شاعری میں رس گھول رہا تھا۔ میر تو اپنے معشوق کے لیے کہتے ہیں کہ

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

انہیں کے معاصرین میں مرزا مظہر جان جاناں بھی تھے جو صوفی منش ہونے کے باوجود دلی کے رنگ سخن میں شعر کہہ رہے تھے۔ یہاں گل سے لے کر گلشن تک سب نے لڑکوں کی قمیضیں اتاریں، انہیں چھجوں سے اتارا اور دالان سے کمرے تک کی راہ دکھائی۔ خواجہ میر درد یکہ و تنہا اس رنگ سے بچے ہوئے تھے، لیکن میر اثر نہ بچ سکے کہ ان کے دیوان میں ہمیں لونڈے اچھلتے اور اتراتے نظر آتے ہیں۔ میں کسی شعر کی مثال نہیں پیش کرنا چاہتا ورنہ فہرست طویل ہو جائے گی۔ صاحب علم و فہم جانتے ہیں کہ سودا، مومن، صہبائی، شیفتہ، میر سوز، اور رند وغیرہ نے کیسے کیسے خیالات امرد پرستی کے ضمن میں پیش کیے ہیں، آپ ذرا اردو کی شعری تاریخ کے ورق الٹیے تو اندازہ ہو جائے گا کہ میر سے لے کر داغ دہلوی تک ہم نے لڑکوں کے چلنے، پھرنے، اٹھنے، بیٹھنے، کھانے، پینے، ہنسنے، بولنے، اٹھلانے، اترانے، دوڑنے اور لپکنے کے کیسے کیسے اطوار کو شعری قالب میں ڈھالا ہے۔ ہم اردو شاعری میں امرد پرستی کے مزاج کو گھلا ہوا پاتے ہیں تو وہ دلی کی ہی دین ہے اور اگر دلی کے بعد کسی دبستان نے اس بزم کو نئے رنگ کے ساتھ سجایا ہے تو وہ رامپور ہے جہاں ہمیں کچھ اپنے ہی قسم کے باذوق نظر آتے ہیں۔

اگر آپ کو تالیف حیدر کا یہ بلاگ پسند آیا تو یہاں کلک کرکے آپ ان کے اشعار پڑھ سکتے ہیں۔