گم شدہ خواتین ناول نگار
یہ ذکر ہے اس وقت کا جب تقریبا ہر گھر میں عورتیں بہت شوق سے ادبی جرائد، مختلف رسائل اور ڈائجسٹ پڑھا کرتی تھیں۔ ان میں کہانیاں اور ناولس قسط بار چھپتی تھیں۔۔۔ ایک قسط پڑھ کر دوسری کا انتطار بڑی شدت سے کیا جاتا تھا۔
یہ ذکر ہے اس وقت کا جب تقریبا ہر گھر میں عورتیں بہت شوق سے ادبی جرائد، مختلف رسائل اور ڈائجسٹ پڑھا کرتی تھیں۔ ان میں کہانیاں اور ناولس قسط بار چھپتی تھیں۔۔۔ ایک قسط پڑھ کر دوسری کا انتطار بڑی شدت سے کیا جاتا تھا۔
بابا نانک جی کا پیغام ہمارے لئے صرف ذاتی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ جماعتی لحاظ سے بھی بہت ضروری اور قابل قدر ہے۔ اس دیس میں جہاں ہزاروں برس سے مختلف مذہبوں کے ماننے والے بستے ہیں ابھی تک باہمی مفاہمت اور رواداری اور یکتا کی وہ روح، وہ فضا پیدا نہیں ہوسکی ہے جو ہر قسم کی مادی اور اخلاقی ترقی کے لئے پہلی شرط ہے۔
گاندھی جی کا یہ کہنا کہ اہنسا میرے لئے ایک پالیسی نہیں بلکہ میرا عقیدہ اور میرا مذہب ہے، عظمت انسانی کے خیال کو مزید تقویت دیتا ہے، کیونکہ عدم تشدد سے پیدا ہونے والی طاقت انسان کے ایجاد کردہ تمام ہتھیاروں سے بدرجہا بہتر ہے۔
قدیم زمانہ میں کسی استاد کی شاگردی اختیار کئے بغیر شعر کہنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ مبتدی شعراء بڑی منت سماجت کر کے کسی مستند شاعر کی شاگردی کا شرف حاصل کرتے۔ زبان و فن کی باریکیاں سیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ استاد کو دکھائے بغیر ایک شعر بھی کسی محفل میں پڑھنے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔
آزادی کے اس احساس کو عوام میں بیدار کرنے، اور سب کو ایک فلیٹ فارم پر جمع کرنے میں اردو زبان و ادب نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ شارب رودلوی اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ “ہندوستان کی جنگ آزادی دو اسلحہ سے لڑی گئی۔ ایک اہنسا، دوسرا اردو زبان۔
Enter your email address to follow this blog and receive notification of new posts.