ایران کی بیٹی ہندوستان کی بہو
وہ کبھی ‘ایران کی بیٹی اور ہندوستان کی بہو’ اور کبھی “عندلیب دکن “اور کبھی”سخن شیریں” کہی جاتی تھیں۔
یہ تھیں اردو کی عاشق ، اردو ، فارسی اور انگریزی کی شاعرہ اور افسانہ نگار، نیلی آنکھیں ،گوری رنگت، کالے بالوں والی ایرانی نژاد، ملنسار ،خوش گفتار ، روشن خیال، بانو طاہرہ سعید (1922_2001 )
ان کی کہانی کچھ ان کی زبانی
چلئے طاہرہ بانو کا تعارف خود ان کی زبانی ہی کراتے ہیں
“میں نے غیر منقسم شدہ ہندوستان کے تاریخی شہر آگرہ میں ایسے خاندان میں جنم لیا جو باوجود ایرانی النسل ہونے کے ہندوستان کا نہ صرف خدمت گزار ہونے کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا بلکہ ہندوستان سے محبت اور اس کی آزادی کی جدوجہد میں بھی ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ میری شادی بھی حیدرآباد کے ایک ایسے فوجی گھرانے میں ہوئی جس کے چار پانچ نوجوان جنگ عالمگیر دوم میں ہندوستان کے دفاع میں اپنی جان سے کھیل رہے تھے۔ کوئی شرق بعید (far east )کے محاذ پر تھا تو کوئی مشرق وسطیٰ میں اور انہیں میں سے ایک شخص بریگیڈیر جی۔ ایم۔ سعید (اور میرے جیون ساتھی) کے روپ میں وطن پر چینیوں کے جارحانہ حملے کے موقع پر بھی سینہ سپر تھا۔”
ادبی میراث
طاہرہ کے والد سعید امیر علی معصومی ایران کے مشہور رئیس تھے دولت مند ہونے کے ساتھ ان کے خاندان میں علم و ادب کا ذوق تھا۔ اسی شوق میں سید امیر علی کمسنی میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے یورپ گئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ایران واپس جانے کے بجائے ہندوستان آ گئے۔ اور پہلے اگرہ اور بعد میں لکھنؤیونیورسٹی میں انگریزی پڑھاتے رہے ۔وہ چودہ زبانیں جانتے تھے۔ ہندوستان میں ہی انھوں نے ایک ایرانی نژاد خاتون سے شادی کی۔ بانو طاہرہ نے پہلے اگرہ اور پھر لکھنو میں اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ۔لکھنو کے مشہور ازابیلا تھوبرن کالج سے بی اے کیا ۔
ایراں کبھی کیھنچے ہے پکارے ہے کبھی ہند
طاہرہ کے والد سن 1937 میں ریٹائر منٹ کے بعد واپس طہران چلے گئے۔ بانو۔طاہرہ بھی ظاہر ہے ان کے ساتھ ایران چلی گئیں ۔ایران میں صحافت کے کورس کی تکمیل کی اور ریڈیو تہران کے شعبہ اردو کی نگران و منتظم بھی رہیں اور بی بی سی کی ٹریننگ بھی حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی میں شاہ ایران نے ادبی انعام سے نوازا۔ اب اتفاق دیکھیے کہ طہران میں ان کی ملاقات ہندوستان آرمی کے میجر سعید سے ہوئ (جو بعد میں برگیڈئیر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے)۔ ان سے شادی کے بعد وہ حیدر آباد میں رہنے لگیں اور وہاں کی ادبی محفلوں ، اور سماجی سرگرمیوں میں ایک ممتاز ہستی بن گئیں۔
آگرہ ، لکھنؤ اور ایران کی تہذیبوں اور ادبی روایتوں میں پلی بڑھی بانو طاہرہ سعید جس نے اٹھارہ سال کی عمر سے شاعری شروع کردی تھی اسکے شاعرانہ مزاج کو حیدرآباد نے اورجلا بخشی ۔ان کی ایک غزل کے یہ دواشعار پیش کرتی ہوں
گُل و بلبل کا وہ رنگین چمن یاد آیا
حافظ و سعدی کی غزلوں کاوطن یادآیا
:اورمطلع میں کہتی ہیں
باغ فردوس میں بھی دل نہ لگا دل نہ لگا
طاہرہ سچ ہے کہ دہ رہ کے دکن یاد آیا
انھوں نے ایک جگہ لکھا تھا ” یوں تو میں نے فطرتاً انسانیت اور کل کائنات سے پیار کرنا سیکھا ہے لیکن ‘ اے سرزمین ہند مجھے تجھ سے پیار ہے’ میرا نعرہ رہا ہے۔ شعر و سخن اور افسانہ نگاری کا بچپن سے شوق ہے۔ میں اپنی خوشی کے لئے لکھتی ہوں۔ یہ میرا محبوب مشغلہ ہے۔ اردو میری محبوب ترین زبان ہے اگرچہ انگریزی اور فارسی میں بھی طبع آزمائی کرتی ہوں”
:ایک نظم میں وہ کہتی ہیں
ہند ماتا کی بیٹی ہے اردو زباں
سانولی چلبلی، نوجواں گلفشاں
میری اردو زباں فخر ہندوستاں
ہندوستانی تہذیب و ثقافت ان کے وجود میں سرایت کر گئی تھی ۔
کہیں وہ اپنی نظموں میں چتوڑ کی رانی پدمنی کو سلام کرتی نظر آتی ہیں۔کہیں سیتا جی کو خراج عقیدت پیش کرتی ہیں۔ کہیں ایک سپاہی کی بیوی کے جزبات نظم کرتی ہیں ۔ کبھی مہ لقا بائ چندا ( جو اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ مانی جاتی تھیں ) پر ایک opera کی تیاری میں اپنی صحافی دوست بلقیس علاالدین کے ساتھ دل وجان سے مصروف ہیں۔ہندوستان کے موسم و اور مناظر ان کی شاعری میں رچے بسے ہیں ۔
آکاش پہ دیپ ستاروں کے
دھرتی پرپھول بہاروں کے
سبزے پر شبنم کے موتی
ساون کی ہوا ٹھنڈی ٹھنڈی
یہ میرے بکھرے سپنے ہیں
ان کی کتابوں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ اس فطری شاعرہ نے خود کو کسی آیک صنف سخن یا خاص موضوع اور نظریہ ادب تک محدود نہیں رکھا ۔خود کو سیل رواں کی طرح آزاد رہنے دیا ۔
ہدیہ طاہرہ (نعتیہ کلام)
آشیاں ہمارا (قومی نظمیں)
دور رہ کر (نثری نظموں کا مجموعہ)
گُل خونچکاں (نظمیں واقعات کربلا)
برگ سنبر (مجموعہ کلام )
مہکتے ویرانے. . . . (مجموعہ کلام )
خون جگر (افسانوں کا مجموعہ)
پنچھی باورا. . . . (فسانوں کا مجموعہ)
سات دوست ( بچوں کی کہانیاں )
منفی و مثبت (امریکی شاعر Tamilinکی انگریزی نظموں کا منظوم ترجمہ)
ان کی اردو نظموں کا منظوم تلگو ترجمہ بھی” ارپنا ” کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔
بانو طاہرہ کو ہندوستان اور بیرون ملک بہت سے اعزازات سے نوازا گیا ۔ ان کی انگریزی ادب کی خدمت کے لئے امریکہ کی ایرزونا یونیورسٹی میں اعزازی ڈی لٹ دیا گیا وہ عالمی پوئٹری سوسائٹی کی ممبر تھیں ۔
ان کی بعض انگریزی نظمیں ہندوستان، USA , اور کامنویلتھ ممالک کے پوسٹ گریجویٹ کورس کی antholgy کے لئے منتخب کی گئ ہیں۔
عام مشاعروں میں شرکت تو نہیں کرتی تھیں ۔خاص ادبی نشستوں میں اپنا کلام تحت الفظ میں بہت متاٹر کن انداز میں سناتی تھیں ۔ریڈیو پر ان کی شاعری اکثر نشر ہوتی تھی ۔
وہ حیدر آباد کی نسائ ادبی تنظیم ” محفل خواتین ” جو 1972 میں قائم ہوئ اس کی بنیاد گذاروں میں شامل تھیں اور اس کی جنرل سکریڑی بھی تھیں ۔یہ تنظیم آج بھی فعال ہے ۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین میں بھی شامل تھیں ۔ انجمن کی ایک فعال ممبر ، مشہور افسانہ و ناول نگار قمر جمالی بانو طاہرہ سے بہت قریب تھیں کی ان کی شخصیت کے بارے میں قمر جمالی کا کہنا ہے
” بانو طاہرہ کو سب بانو باجی کہتے تھے ۔وہ بہت شفیق اور ہر دل عزیز تھیں۔ ہندوستانی لباس بھی پہنتی تھیں اور لمبے اسکرٹ والا ماڈرن ایرانی لباس بھی پہنتی تھیں۔ہمیشہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے پورے اور ناخنوں پر مہندی رچی رہتی تھی ۔۔مکان کی آرائش اور زہورات کی ڈیزائننگ سے بھی شغف رکھتی تھیں ۔
آور ایک نرسری اور کنڈر گارٹن بھی چلاتی تھیں اور پسماندہ خواتین کیامداد باہمی تنظیم سے بھی منسلک تھیں ۔وہ نے تکان کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتی تھیں ۔ان کی کوئ اولاد نہیں تھی لیکن ایک بچی انھوں نے اپنا لی تھی اس کو پال پوس کر بڑا کیاتھا ۔
بانو طاہرہ نے بہت سے ممالک کی سیاحت کی تھی ۔ ان کےافسانے کبھی ترکستان و دمشق کے پس منظرمیں توکبھی ایران و ہندوستان کے ماحول میں جنم لیتے ہیں ۔ان کے افسانوں میں سماجی سروکار کی کہانیاں ہیں بالخصوص خواتین کے مسائل پر ان کا حساس دل بے چین ہوتا تھا۔
شاعری کے دھنک رنگ
بانو طاہرہ کی شاعری میں نہ صرف آصناف سخن کا تنوع ہے ، ان کا شاعرانہ مزاج دھنک رنگ ہے۔ان کی موضوعاتی نظمیں بھی اپنی جگہ متاٹر کن ہیں اور غزلوں میں کلاسیکی رنگ بھی ہے اور تازہ کاری بھی ہے۔
بیسویں صدی کے ہم شاعرِ پریشاں ہیں
مسئلوں میں الجھے ہیں فکر و غم میں غلطاں ہیں
جسکو کہتے ہیں ہم بہار و خزاں
وہ تو ہے جیت ہار پھولوں کی
قدرتی نظاروں کے حسن ان کی شاعری میں ہر طرف نظر آتا ہے ۔
:پھولوں کے درمیاں” ان کی ایک نظم ہے ۔جو کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے
سال بھر کے بعد پھر آئے ہیں مجھ سے ملنے پھول
نیلے نیلے ، پیلے پیلے ، اودے اودے پیرہن
:نظم میں آگے وہ لکھتی ہیں
الجھنیں ،آہیں، غم دوراں کی کتنے سارے روپ
یوں نظر آتے ہیں جیسے اُڑر رہی ہوں تتلیاں
سحر رنگ وبو نے پھر کردیا زندہ مجھے
آرزو یہ ہے کہ میں زندہ رہوں کچھ دیر اور
سال بھر کے بعد پھر آئے ہیں ملنے مجھ سے پھول
ان کی گوناں گوں مصروفیات اور سماجی کاموں کے ہماہمی کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں ایک لطیف غم کی پرورش بھی جھلکتی ہے ۔
جو آگ سی لگا دے جمودِ حیات میں
ایسی خبر سناؤ، مرادل اداس ہے
ہندوستان کے ادبی تاریخ میں بانو طاہرہ سعید کا ایک اہم اور منفرد مقام ہے ۔
ہمارا نام بھی ہے خادمان ِاردو میں
جلاۓ ہم نے بھی ہیں طاہرہ سخن کے چراغ
یہ تحریر ان کی ہمہ جہت ادبی شخصیت ، زندگی اور شاعری کی بس ایک جھلک ہے ۔اس شیریں سخن،حساس سراپا محبت، البیلی شخصیت پر تو پوری ایک کتاب مرتب کی جاسکتی ہے۔
NEWSLETTER
Enter your email address to follow this blog and receive notification of new posts.