Ahmad Faraz Blog

فراز صاحب، ایک یاد

ہم وہ خوش نصیب نسل ہیں جسے احمد فراز صاحب سے ملنے،شعر سننے،مکالمہ کرنے،ہاتھ ملانے اور آٹوگراف لینے کے بے شمار مواقع انعام ہوئے۔۔۔!

یہ دیارِ ادب میں خوش نصیبی کی اعلا مثال ہے کہ فراز صاحب پشاور میں پلے بڑھے،ادبی اٹھان کی خوش بختی ملی۔۔۔ مجھے بھی اس شہرِ ہفت زبان میں جنم لینے، ابتدائی تعلیم حاصل کرنے اور ان گلیوں میں سانس لینے کے موسم ملے ۔۔۔ آج بھی پشاور کے قہوہ خانوں، ادبی حجروں اور شہر کی قدیم گلیوں میں فراز صاحب کے نقشِ قدم اور ان کے شہرِ ذات کی خوشبو محسوس ہوتی ہے ۔۔۔

یہ قصہ خوانی کا قہوہ خانہ ہے ۔۔۔۔یہاں احمد فراز، خاطرغزنوی، فارغ بخاری، رضا ہمدانی، طہ ٰخان بیٹھ کر چائے کی پیالی کی چسکیاں لیتے اور ایک دوسرے کو تازہ شعر سناتے ۔۔۔چلیں ہم بھی ان کی رسم تازہ کرتے ہیں ۔۔۔ ان کی خوشبو کی شادابی قہوہ خانے میں جذب کرتے ہیں ۔۔۔ یہ پشاور کا کمپنی باغ ہے ۔۔۔ اس بزرگ درخت کے نیچے فراز صاحب نے دوستوں کو غزلیں سنائی تھیں ۔۔۔

“اچھا۔۔۔چلیں اس درخت کے قدموں میں بیٹھ کر فراز صاحب کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خواب کی بستی میں نکلتے ہیں۔ ان قدیم گلیوں میں فراز صاحب کی شخصیت کی خوشبو بسی ہے۔ آج کی شام ان گلیوں کے نام۔۔۔!
مجھے سکون کا حصار اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔۔۔ جب ماضی کے اوراق پلٹتا ہوں ۔۔۔ فراز صاحب کو پہلی بار کب پڑھا ۔۔۔ یاد نہیں لیکن جب آٹھویں میں فراز صاحب کے مقبول اشعار دل میں اتر رہے تھے تو کوئی اجنبیت نہیں تھی ۔۔۔ شناسائی کی ایک روشنی تھی ۔۔۔ اور پھر یہ سلسلہ آغاز ہوا تو رکنے میں نہیں آیا ۔۔۔ دسویں جماعت میں بیت بازی کی کتنی مہمات میں فراز صاحب کے اشعار نے بروقت کمک پہنچائی ۔۔۔!

بچپن سے شہرِ ادبِ اطفال کی شہریت نصیب ہوئی۔ تو لفظ کے تخلیقی طلسم کی بیعت کر لی۔ بچوں کے رسائل سے ماہانہ تجدیدِ ملاقات کی رسم نبھائی ۔۔۔ ادب پڑھنے اور لکھنے کے عمل میں شاعری کی دیوی مہربان ہوئی ۔۔۔ دل کو جہاں اچھا شعر ملا ۔۔۔ یاداشت خانے پر نقش کر لیا۔ اب تو یاد بھی نہیں، کتنی ڈائریوں میں ہزاروں اشعار اُتارے ۔۔۔ جب باقاعدہ فراز صاحب کے شعری مجموعوں کی قرات شروع کی ۔۔۔ تو کتنے ہی محبوب اشعار فراز صاحب کے نکلے۔۔۔

خوش قسمتی دیکھیے کہ میٹرک کے دنوں میں ادبِ ا طفال سے وابستہ نوجوان ادیبوں کی انجمن پاکستان ینگ رائٹرز فورم کا سایہ نصیب ہوا ۔۔۔ تو شعر و ادب کا شوق عشق میں ڈھلنے لگا۔

انٹر میں سیاسیات، معاشیات کے ساتھ اردو ادب بھی اختیاری مضمون کے طور پر اپنایا۔ بی۔اے کی اردو اختیاری میں ادب کو زندگی کا قرینہ بنایا۔ تو فراز صاحب کی جتنی غزلیں سامنے آئیں ۔۔۔ اکثر پہلے ہی سے زبانی یاد تھیں ۔۔۔ تنہائی کی گھڑیوں میں ان غزلوں کی تشریح کے وقت فراز صاحب خود شہرِ دل کی گلیوں میں ساتھ ساتھ چلتے نظر آئے ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد دورِ طالب علمی کا یہ جنون مجھے اپنے حصار میں لیتا چلاگیا۔ پشاور،واہ کینٹ،ٹیکسلا،ایبٹ آباد اور اسلام آباد جیسے پشاور کے قریبی شہروں میں فراز صاحب کی کسی محفل مشاعرہ میں شرکت کی خبر پر پشاور سے صبح سویرے نکلنے کی عجلت آج بھی دل پر ابرِ کرم کی طرح برس رہی ہے ۔۔۔

Ahmad-Faraz

اندازہ لگائیے کہ انھی دنوں ڈاکٹر سلیم اختر صاحب کی کتاب ہاتھ لگی۔ فراز صاحب کے بارے میں چند جملے لکھ کر انھیں کچے پکے جذبات کا سطحی سا شاعر قرار دیا گیا تھا ۔۔۔قلم اٹھایا ۔۔۔ اور پبلشر کے نام ایک طویل خط لکھا۔جوشِ جنوں میں فراز صاحب کی ان غزلوں،نظموں کا حوالہ بھی دیا جن میں مزاحمت، انسان دوستی کے احساسات شعریت کی اعلا مثال تھے۔۔بچوں کے ادیب پیارے دوست عبداللہ ادیب سے مشاورت کی اور خط داغ دیا۔مہینوں بعد پبلشر کا خط آیا۔ ساتھ کتب کی سوغات بھی تھی۔اور یہ مژدہ بھی کہ ڈاکٹر سلیم اختر آئندہ ایڈیشن میں فراز صاحب کی شاعری سے سے نصاف کریں گے ۔۔۔ اور تمام کتب کا جائزہ لے کر فراز صاحب کے شعری محاسن سامنے لائے جائیں گے ۔۔۔ خوشی ہوئی کہ جنون نے جادو دکھا دیا ہے۔

جب اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد میں داخلہ ملا تو پھر نیشنل بک فاونڈیشن کی طرف خود قدم اٹھ جاتے، جہاں فراز صاحب فائونڈیشن کے سربراہ تھے۔

فراز صاحب کا قولِ مبارک ہے کہ”میں پشاور آنے کے بہانے ڈھونڈتا ہوں ۔۔۔” اور تب میری یہ حالت کہ “میں فراز صاحب سے ملنے پشاور سے نکلنے کے بہانے ڈھونڈتا ہوں ۔۔۔” قدرت مہربان تھی۔اور پھر پشاور یونی ورسٹی کے اسی شعبہ اردو میں پڑھنے کی سعادت ملی، جہاں سے فراز صاحب بھی پڑھ کر گئے اور جاتے جاتے اپنی رومان خیز داستانیں اور بذلہ سنجی کی حکایتیں ورثے میں چھوڑ کر گئے تاکہ بعد میں آنے والے اس سے فیض اٹھا سکیں ۔۔۔ مجھے کہنا ہے کہ شعبہ اُردو پشاور یونی ورسٹی کے درودیوار سے فراز صاحب کی خوشبو دو برس ہماری جماعت کا حصہ بنی رہی ۔۔۔ اور ہاں غزل کے پرچے میں فراز صاحب کی غزلیں جن کا دل طواف کرتے کرتے تھکتا نہیں تھا ۔۔۔!

پشاور کی ادبی روایت کا یہ احسان کون اُتار سکتا ہے کہ فراز صاحب کے ہر مشاعرے میں شرکت کو دل و جان نے قرض سمجھ کر فرض کی طرح ادا کیا ۔۔۔!

اسی شہر پشاور کی ایک شام ہے، جب محسنِ من محسن احسان صاحب نے آواز دی: فراز صاحب بلا رہے ہیں ۔۔۔ اور پھر سٹیج پر جلوہ افروز فراز صاحب کی غنائیت بھری آواز کانوں میں رس گھولنے لگی۔

“وردگ! میاں سعید کے ہاں سے کچھ پرانے اخبارات و رسائل کی فوٹو سٹیٹ تو لانا ۔۔۔ اور انہیں سلام بھی دے دینا” بعد میں کئی دنوں تک پشاور کے دوست پوچھتے رہے، فراز صاحب کیا کہہ رہے تھے ۔۔۔!

پروفیسر شہزاد خان جو اب پشاور ماڈل کالج میں تدریسِ اردو سے جڑے ہوئے ہیں ۔۔۔ وہ بھی ان دنوں شعر و ادب کی دیوانگی کے حصار میں تھے ۔۔۔ اور کتنی ہی شاموں میں فراز صاحب کو سننے کے لیے میرے ہم سفر بنے رہے ۔۔۔ ہم یونیورسٹی میں مل کر فراز صاحب کی غزلیں پڑھتے ۔۔۔ اور بیت بازی کے مقابلوں میں سناتے۔
فراز صاحب کی زندگی ،شخصیت،نظریہء شعر، مزاحمت، رومان کے کتنے تذکرے سامنے بیٹھ کر دیکھے، سنے ۔۔۔کہیں اختلاف کا رنگ بھی نکلا ۔۔۔کہ مجھے اشتراکیت سے ذہنی ہم آہنگی نہیں تھی لیکن فراز صاحب کی محبت غالب رہی۔ سکوت کی چادر کو اوڑھے رکھا ۔۔۔ فراز صاحب کی ذات کو شعر کے حوالے سے جانا اور مانا ۔۔۔ اور اسی سرشاری میں رہے۔

فراز صاحب پشاور کی ادبی زندگی میں دلچسپی رکھتے تھے ۔۔۔ اور اس سے باخبر بھی رہتے تھے ۔۔۔ پروفیسر ناصر علی سید کے ساتھ ان کا مکالمہ دیکھیے جو ٹی وی سے نشر ہوا اور جس میں فراز صاحب نے ناصر علی سید کی خواہش پر ہندکو میں بھی گفتگو فرمائی ۔۔۔انہیں خاکِ پشاور سے آنی والی ادبی آوازوں کو سننے کا اشتیاق تھا۔ ہندکو کے پہلے روایت ساز افسانہ نگار دوست پروفیسر خالد سہیل ملک نے جب اپنا پہلا ہندکو افسانوں کا مجموعہ فراز صاحب کی نذر کیا تو یہ فراز صاحب کی پشاور دوستی ہی تھی کہ انہوں نے اسی وقت ورق گردانی کی اور مبارک باد دیتے ہوئے جواں سال خالد سہیل ملک کو گلے سے لگایا ۔۔۔ اور بعد میں دوسری ملاقات کے وقت کئی ایک افسانوں کا ذکر کرتے ہوئے خالد سہیل ملک کو مبارک باد دی ۔۔۔ آپ حیران ہوں گے کہ فراز صاحب نے ابتدا میں پشتو شعر بھی کہے لیکن بعد میں اُردو کی زلف کے ایسے اسیر ہوئے کہ اسی عشق میں رواں دواں رہے۔ ان کی مادری زبان ہندکو تھی۔ تاہم پشتو بھی روانی سے بول لیتے تھے۔۔ان کی ہندکو میں کوہاٹی اور پشاوری دونوں لہجوں کا رس شامل تھا ۔۔۔ پشاور کی محبت کو اپنے شعر میں یوں امر کیا

روم کا حسن بہت دامنِ دل کھینچتا ہے
اے مرے شہرِ پشاور! تری یاد آئی بہت

بعد میں جب فراز صاحب کی صدارت میں مجھے سنڈیکیٹ آف رائٹرز پشاور کی محفل میں یہ شعر پڑھنے کا موقع ملا

آنکھوں میں تری ڈوب کے یہ سوچ رہا ہوں
کہتے ہیں پشاور میں سمندر نہیں ہوتا

تو فراز صاحب کا تبسم اور کہنا “مکرر ۔۔۔” دل پر ایسا نقش ہوا کہ آج بھی وہ سرور تازہ ہے۔ جیسے شاعری کو سند مل گئی ہے ۔۔۔اور پھر شعر کا سلسلہ رواں ہوا ۔۔۔ خوشی ہے کہ اگر ادبی زندگی کے اس موڑ پر فراز صاحب، خاطر غزنوی، محسن احسان اور استاد طہ ٰخان کا دستِ شفقت نصیب نہ ہوتا تو کیا دو لفظ موزوں کرنے کا ہنر نصیب ہو سکتا تھا؟؟؟

فراز صاحب اور پشاور کی محبت کا ذکر چھڑ جائے تو یادوں کا دبستان کھل جاتا ہے۔

فراز صاحب کو اگر کسی کام سے آنا ہوتا یا کوہاٹ کی سمت براستہ پشاور جانا مقصود ہوتا تو سنڈیکیٹ آف رائٹرز کے ماہانہ اجلاس کو بھی شیڈول میں شامل رکھتے ۔۔۔ خاطر غزنوی ،محسن احسان، یوسف رجا چشتی، استاد طہ ٰخان تو ان کے یارِ غار تھے ہی، ان کے بعد کی نسل میں محترم مشتاق شباب، سجاد بابر، ڈاکٹر ظہور احمد اعوان، ناصر علی سید، ڈاکٹر نذیر تبسم، عزیز اعجاز، یوسف عزیز زاہد بے تکلف حلقہءاحباب میں شامل تھے ۔۔۔ اور مشاعرے،اجلاس کے بعد تادیر ان سے گپ شپ چلتی۔ تاہم فراز صاحب کی عظمت ہے کہ وہ نوے کی دہائی اور بعد کے شاعروں اور ادیبوں سے بھی شناسا تھے ۔۔۔ اور اظہار بھی فرماتے ۔۔ یہ ڈاکٹر طارق ہاشمی ہیں ۔۔۔ شعر و نقد ادب سے وابستہ ۔۔۔ استاد نشاط سرحدی رباعی میں پشاور کا معتبر حوالہ ہیں، امجد بہزاد غزل کا نیا لہجہ لے کر آئے ہیں ۔۔۔ یہ خالد سہیل ملک ہندکو اردو افسانے کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔۔۔ ان کا نام ڈاکٹر تاج الدین تاجور ہے ۔۔۔ یہ سہیل احمد ہیں ۔۔۔ (استاد محترم ڈاکٹر سہیل احمد فراز صاحب پر ایم۔اے اردو کے دوران تحقیقی مقالہ بھی لکھ چکے ہیں)

نئی نسل میں یہ نظم کے شاعر حماد حسن ہیں۔ یہ گوہر رحمان نوید تحقیق و تنقید سے جڑے ہوئے ہیں۔

فراز صاحب کا خواب تھا کہ پشاور میں اردو ادب کی روایت آگے بڑھے، نئے لوگ سامنے آئیں ۔۔۔ اور اس کے لیے وہ اپنے حصے کی شمع جلانا نہیں بھولے ۔۔۔!

فراز صاحب پر عمر بھر آسمان بھی مہربان رہا اور زمین بھی ۔۔۔ وہ اول و آخر جمال کی علامت رہے ۔۔۔ شعر و شخصیت کے روپ میں ان کا جمال تو بارہا دیکھا کیا ۔۔۔ ان کا جلال بھی ایک بار ملاحظہ کیا ۔۔۔ جب مرحوم استاد محترم ڈاکٹر ظہور احمد اعوان نے جنرل پرویز مشرف اور فراز صاحب کی لڑائی میں فریق بنتے ہوئے فراز صاحب کے خلاف کالم باندھا ۔۔۔ روزنامہ “آج” پشاور کے مالک عبد الواحد یوسفی فراز صاحب کے دوست تھے ۔۔۔ انہوں نے وہ کالم چھپنے سے روک دیا تو ڈاکٹر ظہور اعوان نے وہ کالم یورپ اور امریکا کے اخبارات میں چھپوا دیا ۔۔۔ پی سی ہوٹل پشاور میں فراز صاحب ٹھہرے ہوئے تھے ۔۔۔ اس شام ایک تعلیمی سیمینار تھا ۔۔۔ نظامت میرے پاس تھی۔ڈاکٹر ظہور اعوان مہمانِ خصوصی تھے۔تقریب کے بعد ڈاکٹر ظہور اعوان صاحب فراز صاحب کا سن کر ملنےگئے ۔۔۔ تو فراز صاحب برس پڑے ۔۔۔ میں سہم گیا ۔۔۔ فراز صاحب کہہ رہے تھے: میں ریاست کا ملازم ہوں ۔۔۔ پرویز مشرف کا نہیں ۔۔۔ یہ نوکری مجھے جمہوری دور میں ملی ہے ۔۔۔ اس لیے استعفے کا سوال کہاں سے آگیا ۔۔۔ ڈاکٹر اعوان بھی بھرے ہوئے تھے ۔۔۔ وہ بھی پھٹ پڑے۔۔اس دن اندازہ ہوا کہ فراز صاحب “نشانی بھی یاد رکھتے ہیں اور نشانہ بھی ۔۔۔” بحث میں ہار ماننے والے نہیں ۔۔۔ اعوان صاحب اس شام لاجواب تو ہوگئے تاہم اپنی خود نوشت “کاظم علی جوان” میں فراز صاحب کو “ادھار” لوٹانا نہیں بھولے۔

Ahmad-Faraz

فراز صاحب کو جہاں محبتیں ملیں وہاں دشمنیاں بھی راہ کی رکاوٹ بنیں ۔۔۔ تاہم وہ مردِ آہن تھے۔ بہادری سے لڑے ۔۔ سامنے سے وار کیا کہ منافق نہیں تھے ۔۔۔نظریاتی آدمی تھے۔

فراز صاحب کی شاعری کے ساتھ ناقدین نے ابتدا میں خوب “سوتیلا پن” رکھا۔علم نہیں کہ یہ ایوب خانی مارشل لاء کا خوف تھا یا دائیں اور بائیں بازو کا چکر ۔۔۔ نقاد ہمیشہ ان کو نظر انداز کرتے رہے ۔۔۔ لے دے کے ٹین ایجرز کے شاعر کی پھبتی کس کر آگے نکل جاتے ۔۔۔ فراز صاحب کو ناقدین کے اس رویے کی خبر تھی لیکن پروا نہیں تھی ۔۔۔ ان کی خوش قسمتی کہ اولین ایامِ سخن میں وہ لاہور میں ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔ احمد ندیم قاسمی کی شفقت اور ان کے عہد ساز پرچے “فنون” نے فراز صاحب کو سنجیدہ ادبی حلقوں تک پہنچایا ۔۔۔ اس کے برعکس فراز صاحب کراچی کے مخصوص حلقوں سے عمر بھر رنجیدہ نظر آئے ۔۔۔ انہوں نے اسی رویے کے باعث ریڈیو پاکستان کراچی کی ملازمت تک چھوڑ دی تھی ۔۔۔ باوجود اس کے کراچی میں بھی انہیں ماننے والوں کی اچھی خاصی تعداد نصیب ہوئی۔۔۔!

زندگی کے آخری دور میں فراز صاحب پرویز مشرف کے خلاف اور عدلیہ بحالی تحریک میں شامل ہوئے اور یوں جمہوریت سے ان کی محبت نئی نسل کو منتقل ہوئی ۔۔۔ اور وہ شاعر سے زیادہ تحریک اور مزاحمت کی زندہ علامت بن کر تاریخ میں امر ہوگئے۔

فراز صاحب کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ وہ چاہے حالتِ سفر میں ہوں یا قیام میں، نئے ادب سے باخبر رہتے ۔۔۔ اپنے شعر میں آخر تک کاٹ چھانٹ کرتے ۔۔۔ اپنی ڈائری کو “ورکشاپ” کہتے۔

اکثر خاطر غزنوی اور محسن احسان سے ان کی ادبی گفتگو چلتی ۔۔۔ پشاور کے احباب میں محسن احسان صاحب سے ان کی ذہنی ہم آہنگی ضرب المثل کی طرح مشہور تھی ۔۔۔ اس کے بعد خاطر غزنوی سے وہ آخری وقت تک رابطے میں رہے ۔۔۔!

جب مجھے پشاور یونی ورسٹی میں خاطر غزنوی کی شاعری پر مقالہ لکھنے کا موقع ملا۔تو فراز صاحب نے خوب حوصلہ افزائی کی۔ وہ کہتے: باہر سے کسی نے پشاور آکر ان ادیبوں پر کام نہیں کرنا ۔۔۔ یہاں کے جوان ریسرچ سکالرز ہی یہ فرض نبھائیں گے۔۔

فراز صاحب حب الوطنی کے جذبات سے لبریز شاعر تھے ۔۔۔ دہشت گردی کے دنوں میں ان کا قلم اور قدم امن کے لیے حرکت میں رہے ۔۔۔ پشاور میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر وہ شکستہ دل تھے ۔۔۔ انہوں نے ہی خاطر غزنوی کو تحریک دی کہ دہشت گردی کے خوف سے ادبی سلسلے ٹوٹنے نہ پائیں ۔۔۔ سینڈیکٹ کے جس اجلاس میں حلقہ اربابِ ذوق پشاور کی بحالی اور نئے انتخابات پر قراردادِ تہنیت منظور ہوئی ۔۔۔ اس کی خبر جب ان تک پہنچی تو انہوں نے فون پر خاطر صاحب کو مبارک باد دی۔ ان دنوں خاطر غزنوی پر میرا مقالہ آخری مرحلے میں تھا ۔۔۔ اس لیے ہفتے میں تین چار دفعہ ان سے ملاقاتیں ہوتیں۔ تو یوں انہوں نے فراز صاحب کی مبارک باد پہنچائی ۔۔۔ اسی زمانے میں میری خواہش تھی کہ فراز صاحب حلقہ ارباب ذوق پشاور کی “شامِ ملاقات” کو رونق بخشیں۔ فراز صاحب نے وعدہ کیا کہ جلد ہی بیرون ملک کے دورے سے واپسی پر پشاورآئوں گا ۔۔۔ہم نے تیاریاں شروع کیں ۔۔۔ لیکن افسوس پشاور کا سورج پشاور سے دور غروب ہوا ۔۔۔ اور پھر ہم نے آنسوئوں کے ہالے میں ایک تعزیتی جلسے میں فراز صاحب کو یاد کیا ۔۔۔

مالک کا شکر ہے کہ ہم وہ خوش نصیب نسل ہیں جسے احمد فراز صاحب سے ملنے،شعر سننے، مکالمہ کرنے، ہاتھ ملانے اور آٹوگراف لینے کے بے شمار مواقع انعام ہوئے۔۔۔!