Allama Iqbal

اقبال : ہندوستانی شاعر

بیس ویں صدی کے افق پر تاریخ اپنی پر پیچ راہوں سے گزرتی ہوئی ایسے موڑ پر آ کھڑی ہوئی تھی جہاں سرسید کی مغربیت، مادیت اور عقلیت،حالی کی اصلاح پسندی، شبلی اور شرر کا جمالیاتی ذوق اور اسلامی رومان پروری، اکبرکی مشرق پرستی،رومانویوں کا خواب انگیز تخیل، یونانیوں کا فلسفہ و فکر، عرب کی ہیبت وجلال، عجم کا سوز و گداز اور سرمدیت، رومی کا عشق، نطشے کا فوق البشر اور مجدد الف ثانی کا نظریہء ہمہ از اوست انسانی تاریخ کی تمام فکری لہروں، موجوں اور ارتعاشات نے ایک پیکرِ خاکی میں ادغام و انضمام کا اہتمام کیا اور اقبال کی صورت اختیار کر لی۔ اس عجوبہء روزگار کا عظیم کارنامہ یہ تھا کہ اس نے سرسید کی مغربیت اور  اکبر کی مشرقیت دو شدید انتہاؤں کے درمیان ایک الگ اسلوب زیست کو جنم دیا، جس کو “نئی مشرقیت” سے تعبیر کیا جاسکتا ہے. 1947 میں بہت کچھ بٹ گیا۔ لیکن بٹوارے کا سب سے گہرا گھاؤ یہ تھا کہ اس نے ادیبوں اور شاعروں کے بھی حصے بخرے کر لیے۔

:اس شاعر کی روح کو بھی گھائل کردیا جس نے کہا تھا

اے ہمالہ، اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
(ہمالہ)

شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے
(نیا شوالہ)

ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں ان کو امامِ ہند
(رام)

چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشت عرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
(ہندوستانی بچوں کا قومی گیت)

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
(ترانہء ہندی)

اب کچھ ادبی سیاست باز اپنی نیم تاریخ دانی بگھاریں گے کہ یہ سب اقبال نے ملی و اسلامی شاعر بننے سے پہلے کہا تھا اور بعد میں وہ ہندوستانیت سے تائب ہو گئے تھے۔ ان کی خدمت میں اطلاعاً عرض ہے کہ اقبال اس وقت بھی ہندوستانی تھے جب انھوں نے 1930 میں الہ آباد مسلم لیگ کانفرنس کا صدارتی خطبہ پیش کیا تھا۔ لیکن صد افسوس کہ اس خطبے کو تصورِ پاکستان کا پیش خیمہ قرار دے گیا۔ ذرا کوئی سیاسیات کا عالم اس کی تشریح تو کردے کہ کیا وفاق یا فیڈریشن کا مطلب علاحدہ ملک ہوتا ہے؟ اقبال نے شمال مغربی صوبوں کے وفاقی الحاق کی تجویز رکھی تھی، الگ ملک کی نہیں۔

اقبال 1931 کو دوسری گول میز کانفرنس میں بحیثیت مندوب شرکت کے لیے لندن گئے۔ وہاں ان کے کمسن بیٹے جاوید اقبال کا خط موصول ہوا، جس میں بچے نے باپ سے گراموفون کا کھلونا طلب کیا تھا. اس وقت ہندوستانی باپ اقبال نے اپنے بیٹے کے نام جو نظم لکھی، اس کا صرف :ایک شعر ہی اقبال کی سچی ہندوستانیت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مینا وجام پیدا کر

اقبال ہندوستانی عظمتوں کے سچا نغمہ طراز تھے۔ اقبال کا خمیر ہندوستان کی مٹی سے اٹھا تھا۔ انھوں نے اپنی شہرہء آفاق نظم “شعاعِ امید” اس وقت لکھی جب وہ اپنے تمام افکار ونظریات تقریباً مکمل طور پر پیش کرچکے تھے۔ اس،نظم کی تخلیق کا زمانہ 1935-36 کا ہے۔ اب ذرا اس میں ہندوستانی رفعت و سطوت کا یہ قصیدہ سنیے۔

خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز
اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب
چشم مہ و پرویں ہے اسی خاک سے روشن
یہ خاک کہ ہے جس کا خزف ریزہ درناب
اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواص معانی
جن کے لیے ہر بحر پر آشوب ہے پایاب
جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں

سچ تو یہ ہے کہ اقبال غیر منقسم اور متحدہ ہندوستان کا آخری سب سے بڑا تخلیقی چہرہ تھا۔ یہ اور بات ہے کہ ہر عظیم دانش ور فن کار کی طرح اقبال بھی قومیت کے اس تصور کے مخالف تھے جو منفی، انسانیت دشمن، جارحانہ اور فسطائی فکر کو تقویت بخشتا ہے۔ اقبال نے اس محدود اور تنگ قومیت کے بجائے اس آفاقی انسانی اخوت کا پیغام دیا جس کو وحدتِ بنی آدم یا “وسو دھیوے کٹمبکم” یا “الخلق عیال اللہ” کہا جاسکتا ہے۔

میرے نزدیک اقبال کے ساتھ سرحد کے دونوں طرف سے عظیم ظلم اور ناانصافی کی گئی ہے۔ کسی نے اپنا قومی شاعر بنا کر اقبال کو چھوٹے سے خطے کا علاقائی شاعر بنا دیا اور کسی نے اپنا ملک دشمن قرار دے دیا۔

سچ تو یہ ہے کہ اقبال بالعموم مشرق اور بالخصوص برصغیر کی سانجھی وراثت کا نام ہے۔

میں اپنی ایک نظم “میں اردو زباں ہوں” کے ایک اقتباس پر اس عظیم شاعر کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

وہ اقبال جو عظمتِ آدمیت کا پیغامبر ہے

لہو کے جمود اور دل کے تغافل کا جو نوحہ گر ہے

وہ جس کی نظر بالِ جبریل کی ہمسفر ہے

وہ جس کی صدا خوابِ غفلت میں بدمست ہر قافلے کے لیے ایک بانگِ درا ہے

وہ جس کی خودی دورِ حاضر کی فرعونیت کے لیے بحرِ قلزم کے ساحل پہ ضربِ کلیمی کی نعم البدل ہے

وہ جس نے دیارِ غزل سے لب و عارض و زلف جیسے عناصر کو باہر نکالا

وہ اقبال بھی میری زلفوں کا قیدی رہا ہے

میں اردو زباں ہوں