“جب غالب کی غزل کے نام پر لوگوں کو اپریل فول بنایا گیا”
مرزا غالب اردو فارسی زبان و ادب کے ایک ایسے مینارہء صدرنگ ہیں جن کے تمام رنگوں کو ابھی تک سمیٹا نہیں جا سکااور جب بھی ہم ان کی شخصیت اور فن کی گرہیں کھولتے ہیں ایک نئے رنگ سےہمارا سابقہ پڑتا ہے اور ہم حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ یارب یہ رنگ بھی خاکستر غالب میں موجود ہے۔ انھوں نے اپنے شعری سروکار سے نہ صرف اپنے عہد کو متاثر کیا بلکہ بعد کے زمانوں میں بھی وہ پوری ادبی بساط پر غالب رہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت اور ان کے کلام کی خوشبو ان کے ابتدائی دور سے ہی دہلی کی حدوں سے نکل کر دور دور تک پہنچ چکی تھی چنانچہ بھوپال میں بھی ان کے قدردانوں کا ایک وسیع حلقہ تھا۔
ریاست بھوپال اپنی تشکیل کے اولین دور سے ہی اہل علم و ادب کی قدردان رہی ہے خصوصاً نواب صدیق حسن خاں کا دوربھوپال کی علمی وجاہت کا انتہائی سنہرا دور تھا۔ قال اللہ اور قال رسول کے اسباق کے درمیان میر و مصحفی اور غالب و مومن کی شعری عشوہ طرازیوں کے رنگ بھی فضا میں بکھرے ہوئے تھے خصوصاً غالب کے قدردانوں کا ایک وسیع حلقہ یہاں موجود تھا۔یہی وجہ ہے یہاں غالب کی ابتدائی دور کا کلام اس وقت آگیا تھا جب وہ جوانی کی سرحدوں سے گزر رہے تھے ۔کہا جاتا ہے کہ غالب کو نواب سکندر جہاں بیگم نے اس وقت بھوپال آنے کی دعوت دی تھی جب ۱۸۵۷ء کے بعد دہلی اجڑ چکی تھی اور غالب انتہائی ذہنی اور مالی انتشار کا شکار تھے۔ لیکن اس کی کبھی تصدیق نہیں ہو پائی کہ آیا بھوپال سے سرکاری یا ذاتی طور پر نوابین بھوپال نے ان کو اپنے یہاں بلانے کی دعوت دی ہو لیکن یہ سچ ہے کہ ان کے دو قلمی دواوین یہاں موجود تھے جن میں ایک نواب فوجدار محمد خاں کی ذاتی لائبریری میں ان کی مہر کے ساتھ موجود تھا جسے پہلے پہل انیسویں صدی کی پہلی دہائی میں عبدالرحمان بجنوری نے دریافت کیا اور اس کی اشاعت کا ارادہ کیا مگر ملک الموت نے ان کو اس کی مہلت نہ دی کہ وہ اس کام کو انجام دے سکیں ان کے انتقال کے بعد مولوی انوارالحق نے نسخہ حمیدیہ کے نام سے اسے شائع کیا۔ اس نسخے کے سلسلے میں اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور اب تو یہ قلمی نسخہ اپنی اصل حالت میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ اس دیوان کے علاوہ پروفیسر عبدالقوی دسنوی نے بھی ”غالب اور بھوپال“ کے عنوان سے ایک کتاب ترتیب دی ہے جو یقیناً اہم ہے اس کتاب میں غالبیات کے تحت جو عنوانات قائم کیے گئے ہیں وہ ریاست بھوپال سے غالب کے تعلق کو سمجھنے لئے اہم ماخذات ہیں۔
اس میں ایک عنوان بھوپال میں غالب کے آنے کی دعوت کے سلسلے میں بھی ہے۔اسی مضمون میں پروفیسر عبد القوی دسنوی نے اپنی تحقیق کے مطابق یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ نواب سکندر جہاں بیگم دفعتاً فوقتاً اپنے ماموں میاں فوجدار محمد خاں کے ذریعے غالب کی مالی امداد کرتی رہتی تھیں۔پروفیسر قوی دسنوی نے غالب کے بھوپالی شاگردوں کی ایک فہرست بھی دی ہے جس میں ۱۱ حضرات کے نام اس طرح درج ہیں۔
مولانا محمد عباس رفعت شیروانی (۲) نواب یار محمد خاں شوکت (۳) حافظ محمد خاں شہیر، رامپوری (۴) منشی ارشاد احمد میکش دہلوی(۵) حکیم محمد معشوق علی خاں جوہرشاہجہاں پوری(۶) حکیم اشفاق حسین زکی مارہروی(۷) مرزا یوسف علی خاں عزیز بنارسی (۸) سید احمد حسن عرشی قنوجی (۹) محمد حسین تمنا مرادآبادی (١٠) ولایت علی خاں عزیز صفی پوری (۱۱) شریف حسن دہلوی۔اس فہرست میں چند نام اور بھی محققین نے بڑھائے ہیں ۔
اس سلسلے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ غالب کے واقعی کتنے شاگرد بھوپال میں تھے لیکن اس میں کوئی کلام نہیں کہ شاگروں کے علاوہ بھی ان کے مداحوں کا ایک حلقہ یہاں موجود تھا۔ جس نے اپنے بعد والی نسلوں کو بھی متاثر کیا جس کی ایک مثال سہا مجددی بھی ہیں جنھوں نے نہ صرف یہ کہ غالب کی زمینوں میں غزلیں کہیں بلکہ ان کے کلام کی شرح ” مطالب الغالب” بھی لکھی جو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔
یہاں اس غزل کا ذکر خاص طور پر کرنا چاہوں گا جو مولوی محمد ابراہیم خلیل کے زور قلم کا نتیجہ تھی اور جسے واقعی مرزا غالب کی غزل سمجھ کر اچھے اچھےدھوکا کھا گئے ۔ ہوا یوں کہ ایک بار اپریل ١٩٣٨ء میں ماڈل اسکول بھوپال کے ہیڈ مولوی محمد ابراہیم خلیل نے غالب کے نام سے ایک بڑی مرصع غزل کہہ کر اپنے اسکول کے میگزین ”گوہرِ تعلیم” میں شائع کر دی تھی۔جس میں اپریل فول کی سرخی کے ساتھ نیچے یہ نوٹ درج تھا۔
ماخوذ از کتب خانہ نواب فوجدار محمد خاں، بوسیدہ اوراق میں غالبؔ کی یہ غیر مطبوعہ غزل ملی ہے جسے آخری تبرکات کے طور پیش کیا جا رہا ہے۔
اس میگزین سے یہ غزل “دین و دنیا، دہلی” میں اس تمہید کے ساتھ شائع ہوئی۔
”فصیح الملک خدائے سخن نواب مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ رحمتہ اللہ علیہ کی ایک غیر مطبوعہ غزل وہ متبرک روحانی تحفہ جو اب تک مرزا غالبؔ کے کسی دیوان یا ضمیمہ میں میں شائع نہیں ہوا اور جو امیر الامرا نواب یار محمد خاں مرحوم کے کتب خانہء قدیم سے بذریعہء خاص حاصل کرکے دین و دنیا میں شائع کیا جا رہا ہے. پھر اپریل ١٩٣٩ کے “ہمایوں، لاہور” نے اس غزل کو شائع کیا۔اور اسی پرچہ سے مالک رام نے اسے نقل کیا اور اس کے مقطع کو ”ذکر غالب“ کے دوسرے ایڈیشن ١٩٥٠ء اور تیسرے ایڈیشن ١٩٥٥ء میں استعمال کیااور اپنے مرتبہ ”دیوان غالب“ (مطبوعہ ١٩٥٧ء) میں شامل کیا۔ لیکن بعد میں یہ راز فاش ہوا کہ یہ غزل غالبؔ کی نہیں بلکہ اپریل فول کا تحفہ ہے۔ جس نے اپنی سحرکاریوں سے محققین غالبؔ کے ہوش اڑا دیئے تھے جن میں دو بڑے نام ماہرین غالب مالک رام اور امتیاز علی عرشی کے ہیں جنہوں نے اپنے دواوین غالب میں اس غزل کو غالبؔ کی غزل سمجھ کر شائع کیا۔ اس حقیقت کا انکشاف ڈاکٹر گیان چند نے اپنے مضمون ”غالب اور بھوپال“(اردوئے معلی،دہلی۔ غالب نمر) سے کیا۔
وہ غزل یہ ہے۔
بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو
کیا لطف ہو جو ابلقِ دوراں بھی رام ہو
تا گردشِ فلک سے یونہی صبح و شام ہو
ساقی کی چشمِ مست ہو اور دورِ جام ہو
بے تاب ہوں بلا سے، کن انکھیوں سے دیکھ لیں
اے خوش نصیب! کاش قضا کا پیام ہو
کیا شرم ہے؟ حریم ہے، محرم ہے رازدار
میں سر بکف ہوں، تیغِ ادا بے نیام ہو
میں چھیڑنے کو، کاش اسے گھور لوں کہیں
پھر شوخ دیدہ بر سرِ صد انتقام ہو
وہ دن کہاں کہ حرفِ تمناّ ہو لب شناس
ناکام، بد نصیب، کبھی شاد کام ہو
گھل مل کے چشمِ شوق قدم بوس ہی سہی
وہ بزمِ غیر ہی میں ہوں، پر اژدہام ہو
اتنی پیوں کہ حشر میں سرشار ہی اٹھوں
مجھ پر جو چشمِ ساقیِ بیت الحرام ہو
پیرانہ سال غالبؔ مے کش کرے گا کیا؟
بھوپال میں مزید جو دو دن قیام ہو
اس غزل کے حوالے سے معروف محقق و ناقد ڈاکٹر ابومحمد سحرؔ رقم طراز ہیں کہ اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ اردو تحقیق کا سب سے عبرت انگیز واقعہ کیا ہے تو میں کہوں گا کہ دیوان غالب مرتبہ مالک رام میں اس غزل کی شمولیت جس کا مقطع ہے۔
پیرانہ سال غالب مے کش کرے گا کیا
بھوپال میں مزید جو دو دن قیام ہو
بہرحال یہ لطیفہ اپنی جگہ لیکن اس سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ کبھی کبھی ہماری معمولی سی شوخی یا عدم واقفیت بھی تحقیق کو بے حد متاثر کرتی ہے اور یہی غلط تحقیق تاریخ کا سچ بن جاتی ہے ۔ اس حوالے سے میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ بھوپال سے غالب کی جو بھی نسبتیں ہیں اس میں ابھی مزید تحقیق کی گنجائش ہے کہ تحقیق کا در کبھی بند نہیں ہوتا ہے۔
NEWSLETTER
Enter your email address to follow this blog and receive notification of new posts.