poetry, shatari, sher, urdu, blog

شعر کہانی

شعر کے پس پردہ ایک واقعہ

بات ہے جمنا کے کنارے بسی ہوئی اس دلیّ کی جس کی آغوش میں ابھی مرزا اسداللہ خاں غالب کی سانسیں لہر لے رہی ہیں غالب نفس کوچے شعر و سخن کی فضا میں اپنے پیچ و خم طے کر رہے ہیں پر کشش ہویلیوں کے دریچوں پر ٹھہری ہوئی ہوائیں شمعِ محفل کو داد و تحسین سے نواز رہی ہیں دلیّ کے گلستان نئی فکروں نئے خیالت نئی جہتوں کی بہاروں سے شاداب ہو رہے ہیں بذلہ سنجی فقروں لطیفوں جملوں کی کائنات دن بہ دن ترقی کر رہی یے دربارِ شاہ ظفر سے غالب کے گھر تک کے راستے ادب آہٹوں سے گونج رہے ہیں ذوق و مومن کی شعری ہمنوائی انھیں راستوں پر گیت لکھ رہی ہے

sher kahani mirza-ghalib

ہر شب شبِ برات ہے ہرروز روزِ عید۔ بات جمنا کے کنارے سے گنگا کے کنارے تک پہنچتی ہے۔ بنارس بھی شعرائے دلیّ کی نغمہ سنجی میں کروٹیں لے رہا ہے گنگا جمنی تہذیب کے چراغ دل کی منڈیروں پہ رکھے جا رہے ہیں۔ کاشی کی زمین اندرپرستھ کے آسمانوں کی طرف گردش کر رہی ہے

sher kahani mirza-ghalib

چنانچہ بنارس کے ایک شخص کا دلیّ آنا ہوا اور اک روز مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اِن کے شعر کی بہت تعریف کی مرزا صاحب نے کہا وہ کون سا شعر ہے ارشاد ہو تب اس نے میر امانی المتخلص اسد شاگردِ سودا دہلوی کا شعر پڑھا 

اسد اِس جفا پر بتوں سے وفا کی
مرے شیر شاباش رحمت خدا کی

sher kahani mirza-ghalib

مرزا صاحب نے جب یہ شعر سنا تو کہنے لگے اگر یہ شعر کسی اور اسد کا ہے تو اُس کو رحمت خدا کی اور اگر یہ شعر مجھ اسد کا ہے تو لعنت خدا کی