تخریب کے پردے میں تعمیر کا ساماں ہوتا ہے
آپ نے بھی شاید دیکھا ہوگا، میں چند روز سے برابر دیکھ رہی ہوں کہ میرے بگیا کے پھولوں کا رنگ کچھ زیادہ نکھرآیاہے
کلیاں بھی خوب لگیں ہیں اور پھولی پھولی گویا من ہی من مسکرا رہی ہیں۔اورکھلنے کو بے تاب۔
پتّوں کا رنگ بھی کچھ زیادہ ہی سبز اور چمک لیے ہوئے ہے۔فضا بھی دُھلی دُھلی سی۔
کہیں ایسا تو نہیں، پھولوں نے، کلیوں نے، پتّوں نے، شاخوں نے، چرند نے، پرند نے، مُرغ وماہی نے خالق ِ کائنات کے حضور ایک عرضی بھیجی ہو، التجا کی ہو کہ ربّا ! تیری اِس اَشرفُ المخلوقات سے تو ہم بہت تنگ آگئے ہیں۔ تیرا یہ خاکی کچھ زیادہ ہی سرکش ہو گیا ہے زمین و آسمان سب جگہ حاوی ہو گیا ہے۔ سمندر کے سینے پر بڑے بڑے جہاز اس تیز رفتار سے لے جاتا ہے کہ سمندر کی تہہ میں بھی مچھلیاں خوفزدہ ہو جاتی ہیں۔ کبھی کچھ گندگی ڈال جاتا ہے، کبھی کچھ۔ زمین و آسماں میں دھواں اِس قدر پھیلاتا ہے کہ بعض وقت سانس لینادشوار ہو جاتا ہے۔ کچھ روز کے لیے ہی سہی اسے کسی طرح سے مقیّد کر کہ ہم ذرا آزاد ہوں، تازہ ہوا میں سانس لیں، کچھ موج مزہ ہم بھی تو کریں آخر ہم بھی تو تیری کائنات کا حصّہ ہیں۔
لگتا ہےاِان کی عرضی قبول کر لی گئی ۔ایک چھوٹے سے وائرس(virus)کے ذریعہ انسان مقیّد کر دیا گیا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہاں کہاں سے مرغ و ماہی نکل نکل کر آرہے ہیں۔ دریا میں، سمندر میں بے خوف و خطر اُچھل کود کر رہے ہیں۔ چرند پرند گوشئہ تنہائی سے نکل، اپنی اپنی پرواز آزما رہے ہیں جس جگہ کبھی گزر نہیں ہوا تھا اُس مقام پر پہنچ رہے ہیں۔ اللہ اللہ سبحان اللہ۔
انسان کے لیے غور و فکر کا مقام ہے۔ اب ہمیں اپنا اور کائنات کا رشتہ سمجھنا ہوگا اُس رشتے کی قدر کرنی ہوگی اور اُس میں اپنا صحیح مقام متعیّن کرنا ہوگا۔ اورانشا اللہ ہم یہ کر سکیں گے۔ انسان آخر انسان ہے۔ کائنات کے ماتھے کا سندور اُس کے سینے کا راز جیسا کہ ہمارے شاعر نے کہا ہے۔
تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینہ ء کائنات میں
علّامہ اقبالؔ
پروردگار نے انسان کوعقل کے نور سےنوازہ ہے۔ صحیح راستہ دیکھ ہی لےگا۔ حالات دل شکن ضرور ہیں مگر مایوس کُن نہیں۔ انسان یہ بھی سمجھتا ہے کہ ’’تخریب کے پردے میں تعمیر کا ساماں ہوتا ہے‘‘۔ مولانا ابو الکلام آزادؔ نے ’ترجما نُ القران‘ کی پہلی جلد میں’’کائنات کی تخریب بھی تعمیر کے لیے ہے‘‘ اِس عنوان کے تحت لکھتے ہیں
’’ البتّہ یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا عالم ِ کون و فساد ہے۔ یہاں ہر بننے کے ساتھ بگڑنا ہے اور سمٹنے کے ساتھ بکھرنا۔ لیکن جس طرح ایک سنگ تراش کا توڑنا پھوڑنا بھی اِس لیے ہوتا ہے کہ خوبی و دل آویزی کا ایک پیکر تیّار کر دے اِسی طرح کائنات ِ عالم کا تمام بگاڑ بھی اِس لیے ہے کہ بناؤ اور خوبی کا فیضان ظہور میں آئے۔‘‘
انشا اللہ ایسا ہی ہوگا اِس وباcovid-19 کے بعد بناؤ اور خوبی کا فیضان ظہور میں آئے گا۔ لیکن اُس کے لیے بہت ممکن ہے کہ ہمیں اپنے جینے کے, رہن سہن کے طور طریقے بدلنے ہوں گے۔ اُس سے بھی ضروری یہ ہے کہ اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ انسان کو انسان سمجھنا ہوگا۔ مذہب، رنگ و نسل قوم و وطن کے تفرقے مٹانے ہوں گے اُن سے اوپر اُٹھنا ہوگا۔ پہلے بھی ہم جانتے ہی تھے کہ انسان سب برابر ہیں مگر اب اِس چھوٹے سے وائرس نے علیٰ الاعلان بتا دیا،اب کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہی کہ یہاں نہ کوئی راجا ہے نہ رنگ، نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا نہ کوئی super power ہے نہ کوئی اور طاقت۔ سب برابر ہیں، بہتر ہے کہ اب ہم اس پر عمل کرنا شروع کردیں۔ نفرت کی دیواریں کھڑی نہ کریں بلکہ محبت کی پینگیں بڑھائیں۔ ظلم سے ہاتھ کھینچ لیں۔ دوستی اور صلح کا ہاتھ بڑھائیں۔
اس تصورہی سے کہ’’انسان سب برابر ہیں‘‘ دل کوکس قدر مسرّت حاصل ہوتی ہے۔ پروردگار ہم سب کو نیک توفیق عطا کرے۔ خاص طور سے سیاسی لیڈروں اور مذہبی رہنماؤں کو۔ ویسے تجربہ یہ کہتا ہے کہ اِن سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں رکھنی چاہیں۔ بلکہ عوام خود منزل کی طرف قدم بڑھائیں۔ انسانیت کا پرچم لہرائیں۔ مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔
امید کا دامن تھامے رہیے۔
’’ امید ہی پہ قائم ہے دنیا ہے جس کا نام ‘‘ برج ناراین چکبست اجازت دیجیے
NEWSLETTER
Enter your email address to follow this blog and receive notification of new posts.