شاعری کے استاد
اردوشاعری میں، استاد و شاگرد کی روایت بہت مضبوط ہے۔ یہ روایت اردو ادب کی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔
قدیم زمانہ میں کسی استاد کی شاگردی اختیار کئے بغیر شعر کہنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ مبتدی شعراء بڑی منت سماجت کر کے کسی مستند شاعر کی شاگردی کا شرف حاصل کرتے۔ زبان و فن کی باریکیاں سیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ استاد کو دکھائے بغیر ایک شعر بھی کسی محفل میں پڑھنے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔
مرزا غالب کے ایک استاد عبد الصمد کا کتابوں میں اکثر ذکر ملتا ہے۔ حالی نے غالب کی بایوگرافی میں لکھا ہے کہ مرزا نے عبد الصمد سے فارسی زبان میں کسی قدر بصیرت پیدا کی۔ لیکن مرزا غالب کا کہنا ہے کہ “مجھے مبدا فیاض کے سوا کسی سے تلمذ نہیں اور عبد الصمد محض ایک فرضی نام ہے۔ چونکہ مجھ کو لوگ بے استادہ کہتے تھے ان کا منہ بند کرنے کے لئے میں نے ایک فرضی استاد گڑھ لیا ہے۔” اس واقعہ سے شاعری میں استاد کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔
ہم اگر شاعری کے حوالے سے اساتذہ کی بات کریں اور ‘داغ دہلوی’ کا ذکر نہ آئے تو گفتگو ادھوری سمجھی جائیگی۔ داغ دہلوی کا شمار اردو کے ممتاز ترین غزل گو شعرا میں ہوتا ہے۔ داغ ہی ایسے خوش قسمت شاعر ہیں جن کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں تک پہونچ گئی۔ اسی لئے ان کو استاد داغ کہکر مخاطب کیا جاتا ہے۔
داغ کے شاگردوں میں نواب، فقیر تمام طرح کے لوگ موجود تھے۔ اس کے شاگرد ہندوستان کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے تھے۔ پنجاب میں علامہ اقبال، مولانا ظفر علی اور یوپی میں سیماب صدیقی، بیخود دہلوی اور نوح ناروی وغیرہ سب ان کے شاگرد تھے۔
دبستان لکھنو میں استادی اور شاگردی کی ایک طویل روایت ملتی ہے۔ اساتذہ آگے آگے، پیچھے پیچھے ان کے شاگردوں کا ہجوم۔۔۔ ہاتھوں میں بیاض پکڑے ہوئے استاد کی جے جے کار کرتے آگے بڑھ رہے ہیں۔۔۔ تبھی کوئی دوسرے استاد کا بھی گزر ہورہا ہے، اس کے ساتھ بھی کم و بیش یہی ہجوم ہے۔۔۔ استاد نے ادھر سے کوئی فقرا کسا، کہ ادھر سے جواب آیا۔۔۔ کچھ ان بن ہوگئی، کہ شاگردان لگے گھونسا لات کرنے۔۔۔ یہ لوگ اپنے اپنے استاد کے خلاف ایک جملہ بھی نہیں سن سکتے تھے۔۔۔ اس زمانے میں ڈنکے کی چوٹ پر بڑے فخر کے ساتھ اعلان کیا جاتا تھا کہ میں فلاں کا شاگرد ہوں۔
جب اردو کے متقدمین استاد شعرا کے درمیان شعری و ادبی معرکہ آرائی ہوتی تھی، تو یہی شاگردان ان معرکوں کو اپنے کندھوں پر ڈھوئے پھرتے تھے۔ مجال ہے کہ استاد کی بے عزتی ہوجائے۔ اب یہ خواہ ذوق اور غالب کے معرکے ہوں یا مصحفی و شاگردان سودا کے، انشا و قتیل کے معرکے ہوں یا جرات و نوا کے۔ ناسخ و آتش ہوں یا انیس و دبیر کے معرکے۔۔۔ بہرحال یہ شعرا کے درمیان کی ادبی معرکہ آرائی ہمارے ادب کا زریں ترین حصہ ہے۔
آج یوم اساتذہ کے موقعہ پر ہم کچھ ایسی کتابوں کا آپ کے سامنے ذکر کرنا چاہتے ہیں، جہاں آپ اسی قدیم فضا کو محسوس کریں گے۔ ریختہ ای بکس لائبریری میں اساتذہ فن، شاگردان فن، اساتذہ کی اصلاحیں، ادبی معرکہ آرائیاں، اور ادب کے شخصی اور علاقائی دبستانوں پر مشتمل کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
یہ کتابیں استاد کی اہمیت اور شاگرد و استاد کے درمیان کے رشتوں کی نوعیت کو واضح کرتے ہیں یہ اس بات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ نہ صرف کچھ شاگردوں کی تربیت بلکہ معاشرتی اور قومی تعمیر میں استاد کا کیا رول ہوتا ہے ۔ہمارا یہ انتخاب پڑھئے
بزم داغ
قیام رام پور کے بعد داغ دہلوی نے حیدراباد دکن کا رخ کیا، اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ جن دنوں استاد داغ وہاں مقیم تھے، ان کے دو خصوصی شاگرد احسن مارہروی اور افتخار عالم مارہروی کو داغ سے نہایت قرب حاصل تھا۔ انہوں نے اس زمانے کے تمام واقعات کو قلمبند کرلیا۔ زیر نظر کتاب وہی روزنامچہ یا یادداشت ہے جس کو احسن مارہروی کے صاحب زادے رفیق مارہروی نے “بزم داغ” کے نام مرتب کیا ہے۔ اس کتاب میں استاد داغ کی حیدراباد کی زندگی کے شب و روز کا ذکر ہے۔ نیز داغ کے امیرانہ طمطراق، ان کے مشاغل حیات، ان کی اصلاح کا طریقہ، امرائے دکن سے ان کے تعلقات اور سب سے بڑھ کر ان کی اندرونی زندگی کی دلچسپی و رنگینی کو بڑے ہی عمدہ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔
تلامذہ میر
میر تقی میر خاص مزاج کے مالک ہیں، نہایت سخت اصولوں کے پاسدار، وہ جلد کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ہر کس و ناکس کو شاعری کا اہل نہیں سمجھتے۔ شاگرد بنانے میں بھی خاصی احتیاط برتتے ہیں۔ انہوں نے بہت سے شعرا کو جو آج مسلم الثبوت استاد تسلیم کئے جاتے ہیں، اپنی شاگردی سے محروم رکھا۔ سعادت یار خان رنگین، شیخ ناسخ، میر قمر الدین منت وغیرہ کئی ایسے شاعر ہیں جن کو اصلاح دینے سے انکار کردیا۔ ایسے میں امداد صابری کی کتاب “تلامذہ میر” پڑھنا، اور یہ جاننا کہ ‘جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے’ دلچسپی سے خالی نہیں۔
داغ کے اہم تلامذہ
ہم سب جانتے ہیں کہ داغ اردو شاعری کے جگت استاد ہیں، ان کے شاگرد ہندوستان کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ داغ کی مقبولیت میں اضافے اور ان کے رنگ سخن کی توسیع و ترویج میں جہاں ایک طرف عوامی مزاج اور اس زمانے کی گانے والیوں کا ہاتھ رہا ہے، وہیں ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد بھی اس سلسلے میں معاون ثابت ہوئی۔ زیر نظر کتاب “داغ کے اہم تلامذہ” اسعد بدایونی کی کتاب ہے جس میں داغ کے خصوصی اور اہم شاگردوں کا ذکر کیا گیا ہے، جس میں بیخود دہلوی، بیخود بدایونی، علامہ اقبال، نوح ناروی اور سیماب اکبرابادی جیسے گیارہ بڑے شعرا شامل ہیں۔ جبکہ کتاب میں ایک عمومی فہرست بھی ہے جس میں سیکڑوں شاگردان داغ شامل ہیں۔ کتاب کے شروع میں اردو شاعری میں تلمذ کی روایت، داغ کا طریقہ اصلاح اور داغ کی اصلاحیں جیسے مضامین پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
تلامذہ غالب
زیر نظر کتاب “تلامذہ غالب” مالک رام کی کتاب ہے، یہ کتاب غالب کے شاگردوں کا تذکرہ ہے۔ مالک رام جو کہ ماہر غالبیات میں شمار کئے جاتے ہیں، نے نہایت تحقیق اور ذمہ داری سے غالب کے سیکڑوں شاگردوں کو تلاش کیا، اور ان کے ضروری حالات قلم بند کئے۔ اس تذکرہ میں غالب کے کل 146 شاگردوں کے حالات زندگی شامل ہیں اور کچھ شعرا کی تصویریں بھی موجود ہیں۔ ساتھ ہی ہر تذکرہ کے آخر میں ماخذ بھی بیان کیا گیا ہے۔ غالب کے شاگردوں میں کئی صاحب طرز شاعر شامل ہیں جیسے تفتہ، ثاقب، حالی، شیفتہ، مجروح، عارف اور سالک وغیرہ۔ یہ وہ شعرا ہیں جو اپنی اپنی جگہ نہایت پختہ کار اور صاحب فن استاد ہیں۔ کتاب کے شروع میں مالک رام نے جو دیباچہ تحریر کیا ہے اس میں کچھ ضروری وضاحتیں ہمارے علم میں اضافہ کرتی ہیں۔
دبستان آتش
دبستان لكھنو میں ناسخ اور آتش دو ایسے استاد گذرے ہیں جنھوں نے اپنے انفرادی رنگ كی وجہ سے لكھنو كی شاعری كو ایك نیا رجحان دیا۔ دونوں ہم عصر تھے لیكن فنی نقطہ نظر سے دونوں كے كلام میں فرق ہے۔ یہی فرق ان كے شاگردوں میں بھی نمایاں ہے۔ زیر نظر کتاب “دبستان آتش” میں آتش كے شاگردوں كے كلام سے بحث كی گئی ہے۔ ان كی فنی خصوصیات، ادبی خدمات اور كلام کےمحاسن و معائب كا تنقیدی تجزیہ پیش كیا گیا ہے۔ اس كے علاوہ آتش كے شاگردوں نے لكھنو كی شاعری یا لكھنو كے شعری مزاج پر جواثرات مرتب كیے اس پر بھی سیر حاصل گفتگو كی گئی ہے۔ مصنف نے كتاب كو چھ ابواب میں تقسیم كیا ہے۔ پہلے تین باب لکھنو، فضائے لکھنو اور خواجہ آتش کے متعلق ہیں۔ چوتھا باب تلامذہ آتش سے متعلق ہے۔ پانچویں باب میں تلامذہ آتش كی شاعرانہ خصوصیات کا ذکر ہے۔ چھٹا باب اس دور كی شاعری پر تلامذہ آتش نے كیا اثرا ت مرتب کئے۔ آخر میں کتابیات ہے۔
دبستان ناسخ
شیخ امام بخش ناسخ لکھنؤ اسکول کے اولین معمار قرار دیے جاتے ہیں۔ ان کی پیروی کرنے والوں میں لکھنؤ کے علاوہ دہلی کے شاعر بھی تھے۔ ناسخ اسکول کا سب سے بڑا کارنامہ اصلاح زبان ہے۔ لکھنؤیت سے شاعری کا جو خاص رنگ مراد ہے اور جس کا سب سے اہم عنصر خیال بندی کہلاتا ہے، وہ ناسخ اور ان کے شاگردوں کی کوشش و ایجاد کا نتیجہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب “دبستان ناسخ” ضمیر اختر نقوی کی کتاب ہے۔ ضمیر اختر نقوی نے اس کتاب میں ناسخ کے تمام شاگردوں کا تذکرہ کیا ہے۔ کتاب بہت ضخیم ہے۔ کتاب میں تلامذہ کا تذکرہ الف بائی ترتیب کے ساتھ کیا ہے، جس سے کسی بھی شاگرد کو آسانی سے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ کتاب میں ایک بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ ناسخ کے وہ شاگرد جو مرثیہ گو ہیں، ان کے احوال قدرے تفصیل سے پیش کئے گئے ہیں، جبکہ دیگر شاگردوں کے احوال کے بیان میں اجمال برتا گیا ہے۔
ریختہ ای بکس دنیا کی سب سے بڑی اردو ڈیجیٹل لائبریری ہے، جس میں اب تک تقریباً دیڑھ لاکھ کتابیں دستیاب ہو چکی ہیں۔ اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔’ریختہ ای بکس’ میں ہر رنگ اور حظ کی کتابیں موجود ہیں۔ ریختہ نے اپنے قارئین کی سہولت کے لئے مخصوص کلکشن اور موضوعات بھی ترتیب دئے ہیں، جہاں مختلف اصناف کی سب سے بہتر کتابیں پڑھنے کے لئے ہر وقت دستیاب ہیں۔ آپ ‘ریختہ ای بکس’ لائبریری پر تشریف لائیں، کتابوں کو پڑھیں، اپنی پسند کا اظہار کریں اور اپنے مفید مشوروں سے نوازیں۔
NEWSLETTER
Enter your email address to follow this blog and receive notification of new posts.