اردو شاعر مطلب، مرزا غالب

بالی وڈ کے معروف نغمہ نگار اور فلمساز گلزار نے ایک نظم لکھی ہے جو ان دنوں سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہے۔ اس کا آخری بند کچھ یوں ہے

اسی بے نور اندھیری سی گلی قاسم سے
ایک ترتیب چراغوں کی شروع ہوتی ہے
ایک قرآن سخن کا صفحہ کھلتا ہے
اسد اللہ خاں ’غالب‘ کا پتہ ملتا ہے

چلیے پرانی دہلی کے محلہ بلیماران کی گلی قاسم جان میں، کبھی یہاں ایک شخص غالب نام کا رہتا تھا، لیکن اب بھی لوگ اس کا پتہ کیوں تلاش کرتے ہیں؟ اب بھی وہ اتنا مشہور کیوں ہے؟

میں نے اپنے ایک اُردو داں اور نکتہ سنج دوست سے پوچھا کہ غالب کون ہے؟ ان کا جواب تھا: ’سوال بظاہر سادہ، لیکن بہت گہرا ہے۔ سادہ اس لیے کہ لوگ اس پر ہنسیں گے کہ آپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ غالب کون ہے اور گہرا اس لیے کہ یہ تو غالب کو بھی نہیں معلوم تھا کہ غالب کون ہے؟ اور انھوں نے بھی اس کا جواب دوسروں پر کھلا چھوڑ دیا ہے کہ وہ غالب کو جاننے کی کوشش میں سرگرداں رہیں۔‘

ایک سافٹ ڈرنکس کا اشتہار آیا کرتا تھا کہ ’ٹھنڈا مطلب کوکا کولا‘، ٹھیک اسی طرح آج ’شاعر مطلب مرزا غالب‘ ہے۔

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

’یہ تو سب کو معلوم ہے کہ غالب کے بارے میں ان کے اپنے عہد میں ہی کہا گیا کہ وہ سو سال آگے کے شاعر ہیں تو اب اگر ان کی وفات کے سو سال بعد لوگ انھیں سمجھ رہے ہیں تو اس میں کیا حیرت و استعجاب کیا۔ لیکن غالب کے متعلق ایک المیہ یہ ہے کہ غالب پر زیادہ تر تحقیق اردو والوں نے کی ہے، اس لیے غالب ابھی تک محدود ہیں، اگر اُن پر فلسفے والے تحقیق کرتے تو ان کی شخصیت کی مزید پرتیں کھلتیں۔‘

غالب نے اردو زبان کی کم مائیگی کا رونا رویا تھا تو ریاست بہار میں اُردو کے استاد اور معروف صحافی سید محمد زین الحق عرف زین شمسی نے غالب سے اب تک عدم واقفیت کا الزام اُردو کے محققوں پر ڈال دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غالب لوگوں کو سمجھ میں اس لیے نہیں آئے کہ لوگوں نے غالب کو نہیں بلکہ ان کے شارح کو پڑھا اور جو شارح یا ناقدین نے بتایا اسی عینک سے ان کو سمجھتے رہے۔‘

گویا غالب کے متعلق چار اندھوں کے ہاتھی کو بیان کرنے کی حکایت صادق آتی ہے کہ جس نے ہاتھی کے جس عضو کو چھوا اسے اس طرح بتایا۔

زین شمسی کے بیان پر میرا خیال اس شخص کی جانب گیا جس کا بظاہر اُردو سے کوئی تعلق نہیں لیکن بقول اس کے غالب اس کی روح میں بسا ہوا ہے۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ زین شمسی کے دعوے کی جانچ کر لی جائے۔ فورا فون کیا اور پوچھ لیا تو ایم بی کرنے والے وقار احمد نے کہا کہ ‘غالب نہ تو عام آدمی کی سمجھ کے شاعر ہیں، نہ خواتین کے شاعر ہیں بلکہ وہ خواص کے شاعر ہیں اور وہ بھی جو حالات کے مارے ہیں کیونکہ ان پر ہی غالب کے اشعار کے معانی کھلتے ہیں۔

انھوں نے کہا: ‘غالب کسی ایک عہد کے شاعر نہیں بلکہ قیامت تک کے شاعر ہیں کیونکہ جب تک مسائل ہیں، پریشانیاں ہیں لوگوں کی حسرتیں ہیں جو پوری نہیں ہوتی ہیں اس وقت تک غالب ریلیوینٹ ہیں۔ اور یہ چیزیں ابد تک رہنے والی ہیں۔ غالب کی زندگی پیہم جدوجہد کی زندگی ہے۔ اس آدمی کی ساری عمر خود کو ثابت کرتے گزری، اس کا مسئلہ عوام سے نہیں بلکہ براہ راست خدا سے ہے۔‘

وقار احمد نے کہا: ‘اقبال نے جو ‘شکوہ’ اور ‘جواب شکوہ’ لکھا اس کو غالب نے سو سال پہلے لکھ دیا تھا: ‘خستگی کا تم سے کیا شکوہ کہ یہ/ ہتکھنڈے ہیں چرخ نیلی فام کے’ اور اس کا جواب اسی طرح دیا ہے جیسے اقبال نے ‘جواب شکوہ’ کا خاتمہ کیا ہے کہ ‘کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں/ یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں’ جبکہ غالب کہتے ہیں ‘ اس کی امت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند/ واسطے جس شہہ کے غالبؔ گنبد بے در کھلا’۔

ان کا کہنا ہے کہ غالب کو ان کے اشعار سے ہی سمجھا جا سکتا ہے جن میں ان کے سارے صوفیانہ اور فلسفیانہ اشعار آتے ہیں اور وہ وحدت الوجود کے مبلغ اور پیروکار ہیں جس کو عام آدمی سمجھنے سے قاصر ہے۔

بہر حال غالب کی مشکل پسندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کی زبان کے تعلق سے ان کے ہم عصر معترض تھے۔ یہاں تک کہ عیش دہلوی نے بر سر محفل مرزا غالب پر یہ اشعار پڑھ کر طنز کسا تھا۔

اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے
کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

غالب اپنے آپ میں

بہر حال وقار احمد سے گفتگو کے بعد میں نے نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ کا دیوان اٹھایا اور سرسری دیکھا تو پایا کہ غالب وہ ہے جس کے ذہن میں غیب سے مضامین آتے ہیں۔ غالب وہ ہے جو شوخی تحریر کا قاری ہے۔ غالب وہ ہے جو امید و بیم کے بیچ پھنسا ہوا ہے، غالب وہ ہے جو آتش زیر پا ہے۔ غالب شہ کا مصاحب ہے، اترانے والا ہے۔

غالب عندلیب گلشن ناآفریدہ ہے۔ غالب ستم ہائے جدائی کا حسرت سنج ہے۔ غالب وہ سبزہ ہے جسے زہراب اگاتا ہے۔ غالب خستہ جاں ہے، آزاد مرد ہے۔ شوریدہ حال ہے، آشفتہ سر ہے۔ غالب سخن فہم ہے، سخن ور ہے۔ غالب شرمندہ ہے، غالب شاکی ہے۔ غالب ولی ہے، بادہ خوار ہے، غالب فقیروں کا بھیس بدل کر تماشائے اہل کرم دیکھنے والا ہے۔

غالب غزل سرا ہے، نوا ہائے راز کا محرم ہے، افسردگی اور رنج کا خوگر ہے، معتقد فتنۂ محشر ہے۔ غالب دیوانہ ہے، دانا ہے، اپنے ہنر میں یکتا ہے۔ وہ عدم سے بھی پرے ہے، گیا وقت نہیں کہ جو آ بھی نہ سکے یعنی ہر زمانے کے لیے ہے۔ اس کی آہ آتشیں ہے۔ وہ سرگذشتہ رسوم قیود سے آزاد ہے، اس کا نقش قدم حباب موجۂ رفتار ہے، ساحل کا خمیازہ ہے، جس کی سیل گریہ میں گردوں کف سیلاب ہے۔ غالب وہ ہے جو بندگی میں بھی آزادۂ و خودبیں ہے۔

غالب وہ ہے جس کا کسی چیز پر قابو نہیں، غالب وہ ہے جس کے سامنے دنیا بازیچۂ اطفال ہے۔ غالب آتش بیان ہے، جس کے سامنے کسی سے ٹھہرا نہیں جاتا، غرض کہ زندگی کی کشاکش کا کوئی ایسا پہلو نہیں جس کا اظہار ان کے ہاں نہیں اور پھر یہ کہنا کہ ‘شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے’ اسے مزید طرح دار بناتا ہے۔ پھر بھی غالب بیان سے باہر ہے۔

ایک موقعے پر اردو کے معروف ناقد شمس الرحمان فاروقی نے کہا تھا: ‘اس آدمی (غالب) کی ہم کیا بات کریں، اس کو جہاں سے آپ اٹھاؤ، جس پہلو سے دیکھو، جہاں جس کونے کو اٹھاؤ کوئی نہ کوئی نیا پہلو نکالتا ہے۔’

وقار نے کہا کہ اوپر اللہ تعالی اور نیچے غالب اور بیچ کا سارا ہنگامہ یعنی ‘جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود/ پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟’

غالب کون ہے؟ یہی سوال جب میں نے دہلی میں قائم جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کے پروفیسر احمد محفوظ سے دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ غالب اردو شاعری کی کلاسیکی روایت کے آخری سب سے بڑے شاعر ہیں جب کہ جدید شاعری کی روایت کے پہلے بڑے شاعر ہیں۔’

یعنی غالب وہ شخصیت ہیں جو اردو کی دونوں روایتوں کے درمیان بلند و بالا پل کی حیثیت کے حامل ہیں اور دور سے ہی نظر آتے ہیں کہ ان سے کوئی اعراض نہیں کر سکتا۔

آئیے غالب پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ان کے کوائف کے متعلق آپ کو انٹرنیٹ پر ہر جگہ بھرپور مواد مل جائیں گے کہ وہ 27 دسمبر سنہ 1797 کو آگرے میں عبداللہ بیگ کے گھر پیدا ہوئے۔ 13 برس کا سن تھا کہ دولھا بنا دیے گئے، دہلی آئے اور میاں نوشہ کہلائے، اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ پہلے اسد بنے پھر غالب کہلائے اور زمانے بھر میں مشہور ہو گئے۔ جس کا احساس انھیں بھی تھا۔

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیان اور

مغل سلطنت کو اس کے غروب کے وقت دیکھا۔ بادشاہ کے مصاحب ہوئے، اترائے، پھر نیا دور آیا جس میں آہنی سڑکیں یعنی ریل کی پٹریاں بچھیں اور سنہ 1857 کا واقعہ رونما ہوا جس میں دہلی کیا اجڑی کہ ایک دور اجڑ گیا لیکن غالب اس کا حال بیان کرنے کے لیے زندہ رہے۔ شاعری کم ہوتی چلی گئی اور نثر میں ایک ایسی نئی طرح کی ایجاد ہوئی کہ مراسلے کو مکالمہ بنا دیا گیا اور پھر ‘عزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے’ کہتے ہوئے وہ 15 فروری سنہ 1869 کو وفات پا گئے۔

یہ ایک انسان کی کہانی ہے لیکن غالب کوئی اور چیز ہے۔ زین شمسی نے فون پر بتایا کہ غالب سراپا سوال ہیں۔

‘غالب کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ ان کے کسی بھی شعر کو یا ان کے کسی بھی نظریے کو رد کرنا بہت مشکل ہے۔۔۔ غالب نے اگر زاہد کو میخوانے جاتے دیکھا تو شوخی تحریر کی بھی بات کی ہے۔’

دوسری جانب پروفیسر احمد محفوظ کا کہنا ہے کہ غالب نے فارسی غزل کے مقابلے میں اردو غزل کو سٹیبلش کرنے کا کام کیا۔ غالب کی غزل اپنے عصر کے اعتبار سے کلاسیکی ہے اور اس کی تمام خصوصیات اور صفات سے بہرہ ور ہے۔

ان کے ہاں استہفامیہ انداز بہت ہے۔۔۔ کیا ہے، ایسا کیوں ہے؟ ان کے پیش رو سوال نہیں کرتے لیکن وہ سوال کرتے ہیں؟ دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟ ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟ جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود، پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

روفیسر احمد محفوظ کا کہنا ہے کہ نئی حسیت کے نقوش غالب میں نظر آنے لگتے ہیں جبکہ سٹائل یعنی طرز ادا کے معاملے میں غالب بالکل مختلف ہیں۔ مضامین وہی ہیں، عاشق و معشوق اور رقیب لیکن ان کا بیان تعقل پسندی پر مبنی ہے، ایبسٹریکٹ ہے، مجرد، عقلی اور تخیلی ہے۔ غالب کی تشبیہیں، استعارے، تخیلی اور تعقلی زیادہ ہیں۔

نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
حباب موجۂ رفتار ہے نقش قدم میرا

ان کے ہاں خیال بندی ہے یعنی خیال کو نئے معنی آفرینی کے ساتھ باندھنا۔ اس میں ناسخ اور شاہ نصیر جیسے شاعر مہارت رکھتے تھے جبکہ بیدل کو ید طولی حاصل تھا۔ جس کا اعتراف خود غالب نے کیا ہے:

طرز بیدل میں ریختہ کہنا/ اسد اللہ خاں قیامت ہے

جسے نصیب ہو روز سیاہ میرا سا
وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیونکر ہو

غالب اپنے شعر میں اور اپنی زندگی میں بھی مشکل پسند ہیں۔ وہ براہ راست چیزوں کو کہنے کے بجائے تہہ داری کے ساتھ کہتے ہیں جس کے بیک وقت کئی مطالب لیے جا سکتے ہیں۔

میں نے جن تین افراد سے بات کی ان میں ایک استاد اور صحافی، ایک عام قاری اور ایک اردو زبان و ادب کے پروفیسر ہیں لیکن ان سب کا کہنا ہے کہ غالب پکے مسلمان ہیں لیکن ان کو سمجھا نہیں جا سکا ہے اور یہ کام انھوں نے خود ہی کیا ہے۔

احمد محفوظ نے ایک شعر کو مثال کے طور پر پیش کیا

‘زنار باندھ سبحہ صد دانہ توڑ ڈال/ رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر’

اور تشریح کرتے ہوئے کہا کہ تسبیح کے دانے میں اونچ نیچ ہوتی ہے جبکہ زنار ایک دھاگہ ہے اور سیدھا ہوتا ہے جسے دوسرے مذہب والے باندھتے ہیں یعنی اسلام پر چلنا دوسرے مذاہب کے مقابلے مشکل کام ہے اور انھوں نے مشکل کام کو منتخب کیا ہے۔

غالب کہتے ہیں کہ ‘جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر۔’

‘مضمون آفرینی سے آگے کی منزل خیال بندی ہے اور غالب کا یہ اعجاز ہے کہ ان کے بیشتر اشعار اسی زمرے میں آتے ہیں اور ایک جہان معانی لیے پھرتے ہیں۔ غالب نے اپنے ایک خط میں لکھا کہ ‘شاعری قافیہ پیمائی نہیں بلکہ معنی آفرینی ہے۔’

زین شمسی کا کہنا ہے کہ انھیں کورونا کے زمانے میں غالب کا یہ شعر ‘نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا/ ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا’ سمجھ آیا۔

ان کا کہنا ہے کہ غالب کے مذہبی رجحان کا جو معاملہ ہے وہ مسلمان والا نہیں ہے بلکہ اسلام نے جو کہا ہے وہ ہے۔ آفاقی ہے کائناتی تصور ہے۔ دنیا میں دو چیزیں ہیں، ثواب اور گناہ اس طرح آخرت میں دو چیزیں ہیں جنت اور جہنم اور ان کے درمیان دو چیزیں ہیں عمل اور کرشمہ یا معجزہ۔ سب کی چاہت جنت میں جانا ہے اور عالمی پیمانہ پر مذہب کا منظم کاروبار پھیلا ہوا ہے لیکن غالب اس مذہبی معیشت اور صنعت سے پرے ہیں۔

اس کے ساتھ انھوں نے کہا کہ غالب کے کلام کو یونہی عبدالرحمان بجنوری نے الہامی کتاب کا درجہ نہیں دے دیا ہے کہ ‘ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں، مقدس وید اور دیوان غالب۔’

غالب اپنے فارسی کلام کو زیادہ اہمیت دیتے تھے لیکن انھیں ان کے اردو کلام کی وجہ سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ وہ ایک ایسے شخص تھے جو زندہ جاوید تھے، لیکن ان کا کلام آفاقی ہے۔

معروف تاریخ نویس ولیم ڈیلرمپل نے دو سال قبل ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا وہ شیکسپیئر جیسے دوسرے عظیم شاعروں کی طرح وہ ہر زمانے کے لیے ہیں جبکہ شمس الرحمان فاروقی نے کہا کہ کوئی شاعر اس وقت تک عظیم ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ اس کی شاعری زمان و مکاں کی قید سے آزاد نہ ہو۔

غالب کی نثر

اس کے متعلق معروف ناقد شمیم حنفی لکھتے ہیں کہ ‘نثر و نظم میں کئی اعتبار سے غالب استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس امتیاز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دوسرے کسی مصنف نے اتنا کم لکھ کر ایسی مستحکم اور مستقل جگہ اپنے لیے نہیں بنائی جیسی کہ غالب نے۔

‘میر غلام حسنین قدر بلگرامی کے نام ایک خط میں غالب نے لکھا تھا: ‘بارہ برس کی عمر سے نظم و نثر میں کاغذ مانند اپنے نامہ اعمال کے سیاہ کر رہا ہوں۔۔۔باسٹھ برس کی عمر ہوئی۔ پچاس برس اس شیوے کی ورزش میں گزرے۔ اب جسم میں تاب وتواں نہیں۔ نثر فارسی لکھنی یک قلم موقوف۔ اردو، سو اس میں عبارت آرائی یک قلم متروک۔ جو زبان پر آوے اور قلم سے نکلے۔ پاؤں رکاب میں ہے اور ہاتھ باگ پر۔ کیا لکھوں اور کیا کہوں۔’

غالب اگر ناامیدی کے سب سے بڑے شاعر کہے جاتے ہیں تو وہ امید کے بھی سب سے بڑے شاعر ہیں اور ان کا یہ مصرعہ اس پر صاد کرتا ہے کہ ‘کف افسوس ملنا عہد تجدید تمنا ہے’۔

شاعری کی تعریف و تشریح بہت سے لوگوں نے کی ہے لیکن جس میں مضمون بندی ہو وہ اچھی شاعری ہے، جس میں مکالمہ ہے وہ اس سے بلند تر ہے لیکن جس میں خود کلامی ہونے لگے وہ عظیم تر ہے اور غالب کے یہاں یہ تینوں کیفیات اپنے معیاری انداز میں موجود ہیں لیکن خود کلامی سب سے زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ غالب ہر دور کے لیے نئے معانی کے ساتھ سمجھے جاتے رہیں گے جبکہ معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ‘غالب دنیا کا واحد ایسا شاعر جو جب سمجھ میں نہ آئے تو دگنا مزہ دیتاہے۔’

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

یہ بلاگ 27 دسمبر کو بی بی سی اردو میں شائع ہو چکا ہے۔